پشاور ہائیکورٹ نے کسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی عمل سے روکنے کے مترادف قرار دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کی بحالی کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 26 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس ارشد علی نے تحریر کیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت سیاسی جماعت 5 سال میں انٹرا پارٹی انتخاب کرانے کی پابند ہے، انٹراپارٹی انتخاب نہ کرانے پر دولاکھ روپے جرمانہ ہے، سیکشن 208 الیکشن کیمشن کو انٹراپارٹی انتخاب کی نگرانی یا اسکے خلاف کوئی شکایت سننے کا اختیار نہیں دیتا۔
فیصلے کے مطابق سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخاب کے7دن کےاندر دستاویزالیکشن کمیشن کودینےکا پابند ہے، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 209 الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخاب پر سوال اٹھانے کا اختیار بھی نہیں دیتا۔
تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 17 دو کے تحت سیاسی جماعتوں کونشان کے ساتھ انتخاب لڑنے کا حق ہے، جو سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کے سیکشن 202,206,209,210 کے تحت انتخاب کرائے وہ انتخابی نشان کی اہل ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 کا تعلق انٹرا پارٹی دستاویزات سے ہے۔
عدالت کے مطابق الیکشن ایکٹ کاسیکشن 215پانچ اس وقت عمل میں آتا ہے جب شوکاز نوٹس کے تحٹ سیاسی جماعت 209 اور 210 پر عمل نہ کرے۔ پی ٹی آئی کےانٹرا پارٹی انتخات خیبرپختونخوا میں منعقد ہوئے، پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار اس کیس میں بنتا ہے، کسی جماعت کوانتخابی نشان سےمحروم کرناسیاسی عمل سےروکنےکےمترادف ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری کیا جائے اور پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ کیا جائے۔