آذربائیجان نے ناگورنو کاراباخ ریجن میں انسداد دہشت گردی کارروائی کا آغاز کردیا، جس کا مقصد آئین نظم و ضبط کی بحالی اور آرمینیائی فوجی تشکیلات کا خاتمہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ فوٹیج جاری کی گئی ہے، جس کے مطابق کاراباخ کے دارالخلافہ جسے آذربائیجان خان کندی کہتا ہے میں بڑے دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔
آذربائیجان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ چند مہینوں کے دوران آذربائیجان کے علاقے کاراباخ میں آرمینی مسلح فورسز نے آذربائیجان کی مسلح افواج کی چوکیوں پر منّظم شکل میں فائرنگ کرنے، علاقے میں بارودی سرنگیں بچھانے اور مورچے بنانے کی کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں جو علاقائی تناؤ میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
بیان کے مطابق آرمینی فوج بھاری نفری، بکتر بند گاڑیوں، توپوں اور دیگر عسکری سامان کے ساتھ اپنے مورچوں کو مضبوط بنا رہی ہے، آرمینی فوج نے امدادی یونٹس بھی تشکیل دیئے ہیں اور ساتھ ہی آذربائیجان فوج کیخلاف خفیہ کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔
وزارت دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 10 نومبر 2020ء کو طے پانے والے سہ فریقی اعلامیے کی شرائط کے برعکس آرمینی مسلح افواج کا آذربائیجان کے علاقے کاراباخ میں موجودگی برقرار رکھنا علاقائی امن و استحکام کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے۔
آذربائیجان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ سہ فریقی اعلامیے کی شرائط کو نافذالعمل کرنے، کاراباخ کے اقتصادی علاقے میں بڑے پیمانے کے آپریشنوں کا سدّباب کرنے، آرمینی مسلح افواج کے اسلحہ پھینک کر ہماری زمین سے نکلنے، عسکری انفرااسٹرکچر کو ناکارہ بنانے، قبضے سے چھڑائی گئی زمین پر واپس آنیوالے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور جمہوریہ آذربائیجان کی آئینی ساخت کی تعمیرِ نو کیلئے اینٹی ٹیرر آپریشن شروع کروا دیا گیا ہے۔
وزارت دفاع نے مزید کہا ہے کہ فوجی آپریشن میں شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیر صرف جائز فوجی اہداف کو تباہ کیا جا رہا ہے جبکہ روس امن فورس کمانڈ آفس اور ترکیہ۔روس مشترکہ مانیٹرنگ مرکز کو آذربائیجان کی فوجی آپریشن کیلئے اختیار کردہ تدابیر سے آگاہ کردیا گیا ہے۔
آذر بائیجان حکام کا کہنا ہے کہ شہریوں کو ہیومینیٹیرین کوریڈور کے ذریعے بلاخوف و خطر بار جانے کی اجازت ہوگی۔
دوسری جانب آرمینیا کا کہنا ہے کہ اس افواج کاراباخ میں موجود نہیں۔ وزارت دفاع سے جاری بیان کے مطابق آذربائیجان کے ساتھ سرحد پر حالات مستحکم تھی۔