سعودی سفیر شہزادہ خالد بن بندر نے کہا ہے کہ سعودی عرب غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں برطانیہ میں تعینات سعودی سفیر شہزاد خالد بن بندر کا کہنا تھا کہ ہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ایسے کسی بھی معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کی تشکیل ہونی چاہیے۔
سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ سے قبل ہم اس حوالے سے ایک معاہدے کے قریب تھے۔
شہزادہ خالد بن بندر نے خبردار کیا کہ غزہ تنازع کے معاملے پر انسانیت ناکام ہوئی ہے اور عالمی برادری نے لڑائی کو ختم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ برطانیہ کو اس کی پوزیشن کو اعتدال پسند دیکھنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہتے ہیں جس طرح وہ دوسروں کے ساتھ کرتا ہے۔
سعودی عرب، عرب اور اسلامی دنیا کا لیڈر ملک ہے جس نے 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے کبھی بھی باضابطہ طور پر اسے تسلیم نہیں کیا اور تعلقات کو معمول پر لانے والا معاہدہ یہودی ریاست کے لیے ایک اہم پیش رفت کی نمائندگی کرے گا۔
یاد رہے کہ ستمبر کے اواخر میں اس حوالے سے سعودی عرب کے حکمران محمد بن سلمان نے ایک امریکی ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعلان کیا تھا کہ ’’ ہم ہر روز ایک معاہدے کے قریب تر ہو رہے ہیں ‘‘۔
انٹرویو کے دوران یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سعودی عرب حماس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کے حصے کے طور پر دیکھتا ہے تو شہزادہ خالد نے کہا کہ اس کے لیے بہت سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کے ساتھ آج ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ایک انتہائی، مطلق العنان نقطہ نظر ہے جو سمجھوتہ کرنے کے لیے کام نہیں کرتا اور اس وجہ سے آپ کبھی بھی تنازعہ ختم کرنے والے نہیں ہیں۔
شہزادہ خالد نے یہ بھی خبردار کیا کہ جنگ کے نتیجے میں بنیاد پرستی کا خطرہ ہے۔
یاد رہے کہ وزارت صحت غزہ کے مطابق حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی فورسز کے حملوں کے نتیجے میں 23,200 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔