غیرمستحکم معاشی صورتحال کے باعث پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ ایک جانب تو گاڑیوں کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے تو دوسری طرف ان کی قیمتوں میں 100 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل انڈسٹری اور حکومت سے منسلک ماہرین آئندہ چھ ماہ تک گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے کو روپے کی قدر سے مشروط کر رہے ہیں۔
غیر مستحکم کرنسی گاڑیاں سستی نہ ہونے کی بنیادی وجہ آٹو موبائل انڈسٹری سے منسلک ڈیلرز کے مطابق ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونا بظاہر ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی کرنسی اس وقت مستحکم نہیں ہے۔ ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں ڈالر کے ریٹ سے جڑی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ملک میں بڑی آٹوموبائل کمپنیوں کی اجارہ داری اور ناقص حکومتی پالیسیوں کے سبب گذشتہ 30 برسوں سے آٹو انڈسٹری کے لیے مقامی سطح پر پلانٹس نہیں لگائے جا سکے۔‘
دوسری جانب حکومتی ترجمان کے مطابق ملک میں گاڑیاں مزید مہنگی ہونے کے خدشات فی الحال کم ہیں مگر قیمتوں میں کمی ڈالر کے سستا ہونے پر منحصر ہے۔
مہنگی گاڑیوں کی وجہ سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ’تین سال کے دوران گاڑیوں کی مجموعی پیداوار میں 46.07 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔
انڈیا میں گاڑیاں سستی کیسے؟
پاکستان کہ نسبت انڈیا میں گاڑیاں سستی ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آٹو انڈسٹری سے وابستہ افراد نے بتایا کہ انڈیا کی مستحکم معیشت اور انڈین روپے کی مضبوطی کے سبب وہاں گاڑیاں پاکستان کی نسبت نصف قیمت پر دستیاب ہیں۔
انڈیا میں آٹو موبائل کمپنیوں کے بڑے مقامی پلانٹس بھی گاڑیاں سستی ہونے کی وجہ ہیں۔
آٹو انڈسٹری کے کاروبار سے منسلک افراد کہتے ہیں کہ انڈیا گاڑیوں کے سپیئر پارٹس باہر سے نہیں منگواتا۔ ملک کے اندر ہی گاڑیوں کے پارٹس بننے سے قیمتیں مستحکم رہتی ہیں۔ پاکستان کو گاڑیاں عام آدمی کی دسترس میں لانے کے لیے مستحکم معیشت، کرنسی اور آٹو پارٹس کی لوکلائزیشن پر مبنی متعارف کروانا ہوں گی۔