نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ مسلح تنظیمیں پاکستان توڑنے کیلئے جدوجہد کررہی ہیں، ہم مظاہرین کے احتجاج کو تسلیم کرتے ہیں، لواحقین کے دہشت گردی کے حق کو تسلیم نہیں کرتے، کیا انہیں لوگوں کو قتل کرنے کا لائسنس دیدیں؟، مجھے طعنہ نہ دیں کہ بلوچ مجھے یاد رکھیں گے، منصب سے اترنے کے بعد کھل کر بولوں گا۔
لاہور میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلح تنظیمیں پاکستان کو توڑنے کیلئے جدوجہد کررہی ہیں، مسلح تنظیمیں 3 سے 5 ہزار بندے مار چکی ہیں، سیکیورٹی فورسز کا دہشتگردوں سے ٹکراؤ بھی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم مظاہرین کے احتجاج کو تسلیم کرتے ہیں، مرنے والے دہشتگردوں کے بھی لواحقین ہوتے ہیں، ان کے دہشتگردی کرنے کے حق کو تسلیم نہیں کرتے، جو جو ان کے حق میں ہے وہ بی ایل اے اور بی ایل ایف جوائن کرلے ہمیں بھی سمجھ آئے۔
نگران وزیراعظم نے سخت لہجے میں کہا کہ بار بار مجھ پر تنقید ہورہی ہے، کیا کریں ان کو قتل کرنے کا لائسنس دے دیں؟، اگر کوئی سمجھتا ہے یہ حق پر ہیں تو جاکر ان کے ساتھ کھڑا ہو، چیزوں میں کنفوژن پیدا کرنے والوں کو کہتا ہوں یہ 1971ء ہے نہ یہ بنگلادیش بننے جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھے طعنہ نہ دیں کہ بلوچ مجھے ’’یاد‘‘ رکھیں گے، میرا بلوچوں کی تین تین نسلوں سے تعلق ہے، میرا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں، ریاست کا مسلح تنظیموں سے ہے، ٹوئٹر پر بیٹھ کر جنگ لڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس دن اس منصب سے ہٹوں گا کھل کر بات کروں گا، بہت ساری باتوں میں محتاط ہوکر گفتگو کرنی پڑتی ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والوں کو قبول نہیں کریں گے، 9 مئی کو احتجاج کرنے والوں کا بھی یہی ایشو تھا وہ قانون کے دائرے سے باہر آگئے تھے، مجھے خوشی ہوئی کہ پنجاب کے لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں سے ہمدردی ہے۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ کرمنل جسٹس سسٹم ٹھیک نہیں ہے، کس نے کریمنل جسٹس سسٹم کو ٹھیک کرنا تھا، علیحدگی پسند ہندوستان سے پیسہ لے کر 80، 80 شہریوں کو قتل کرتے ہیں، 9 آدمی بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچے، عدالتوں والے طعنہ نہ دیئے جائیں، میں نگران حکومت میں ہوں روز پوچھا جاتا ہے کب جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی صحافت میرا کام نہیں صحافیوں کا کام ہے، آئیں بلوچستان آنے سے کس نے روکا ہے، پنجگور اور نوشکی کیمپ پر آرگنائز حملے ہورہے ہیں، وکلاء اور اساتذہ کو مارا جارہا ہے، 4 ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا، اس پر بھی لب کشائی ہونی چائے، جعلی اور جھوٹے ہمدردوں سے مسئلہ ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ پاکستان کی ریاست کی لڑائی ہے پاکستان اس کو لڑنے کیلئے تیار ہے، جس کا خیال ہے اس ملک کو توڑ لے گا یہ اس کی خام خیالی ہے وہ غلط فہمی دور کرے، بہت سارے احتجاجی انہی قاتلوں کے ساتھ منسلک ہیں یہ سب جانتے ہیں، کیا قانون سازی کرالیں کہ خرگوش، کتا اور پنجابی کا قتل بلوچستان میں جائز ہے؟، 2 ڈنڈوں سے اتنی تکلیف نہیں ہونی چاہئے، مجھے لواحقین سے نہیں پاکستان سے گلہ ہے جس کو بات سمجھ نہیں آئی۔
انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ 98 فیصد بلوچ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ایک ماحول بنادیا گیا ہے کہ وزیراعظم بلوچستان کے لوگوں کی بات نہیں سن رہے، ڈھٹائی کے ساتھ گفتگو کرنے سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں آئندہ بھی کریں گے، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے کوئی سوال کریں تو وہ گولی ماردیتے ہیں، احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کو غزہ سے جوڑاجارہا ہے، آزادی رائے سب کا حق ہے سوشل میڈیا پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ سیکیورٹی کا چیلنج بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے، مولانا فضل الرحمان کے قافلے پر فائرنگ کا معاملہ بھی الارمنگ ہے، خیبرپختونخوا کے جنوبی علاقوں میں فورسز کام کررہی ہیں، دہشت گردی کی نئی لہر پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں، الیکشن کے دن امن و امان کیلئے ہر دستیاب وسائل استعمال کریں گے، میں 8 فروری کو ووٹ ڈالنے کیلئے پوری طرح تیار ہوں۔