طالبان حکومت میں افغان خواتین کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا، ترجمان اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں دوران زچگی ہر 2 گھنٹے میں ایک خاتون کی موت ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق افغانستان کو عالمی سطح پر زچگی اور بچوں کی شرح اموات کا سامنا ہے جہاں ایک لاکھ بچوں کی پیدائش پر 638 خواتین کی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ نے خبردار کیا کہ 2025 تک خاندانی منصوبہ بندی کلینک ختم ہوجائیں گے، افغانستان میں خواتین صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ماؤں اور بچوں کی شرح اموات میں اضافے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نابالغ بچیوں کی شادیوں سے بڑھتے ہوئے خطرات اور عسکریت پسندوں سے خواتین کی جبری شادیوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق افغانستان میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی شدید کمی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق 10 ہزار افغانیوں کے لیے صرف 4.6 ڈاکٹر، نرسیں اور دائیاں ہیں جو کہ معیاری سطح سے تقریباً 5 گنا کم ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ہر 1 لاکھ بچوں کی پیدائش پر 5 ہزار زچگی کی اموات خطرناک حد تک بڑھی ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین کا معائنہ کرنے والے مرد ڈاکٹروں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے، اسپتالوں اور کلینکس کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ صرف خواتین عملے کو ہی خواتین مریضوں کی دیکھ بھال کی اجازت دیں۔
وائس آف امریکا کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کی واپسی نے صحت کے بحران کو مزید بڑھا دیا، خواتین کا طبی شعبہ شدید متاثر ہوا جسکی وجہ سے خواتین کو بنیادی زندگی کے حقوق اور تعلیم میں پابندیوں کا شدید سامنا ہے۔
Women in #Afghanistan face dire conditions under #Taliban regime.
— SAMAA TV (@SAMAATV) December 30, 2023
Shocking stats reveal one #woman loses her life in #childbirth every two hours. With maternal mortality rates soaring, #Afghanistan sees 638 women per 100,000 births, among the world's highest.#SamaaTV pic.twitter.com/9XDPBtjh3o
رپورٹ کے مطابق خواتین کو اسپتالوں تک پہنچنے کے لیے پہاڑی رستے کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے وہ رستے میں ہی دم توڑ دیتیں ہیں، سرکاری اسپتالوں تک رسائی ناممکن ہونے کی وجہ سے خواتین کو بچے کی پیدائش کے لیے اپنی ادویات خود لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ڈیلیوری کی لاگت تقریباً 2 ہزار افغانی روپے ہے، جو کہ بہت سے خاندانوں کی استطاعت سے باہر ہیں۔
واضح رہے کہ سنہ 2021 میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغانستان میں تشدد سے بچ جانے والی خواتین کے لیے 23 ریاستی سرپرستی کے مراکز تھے جو کہ موجودہ انتظامیہ کے تحت بند کر دیے گئے ہیں، طالبان حکومت خواتین کی صحت کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اسے مغربی تصور قرار دیتے ہیں۔