ماہرین صحت و تعلیم کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکمرانو ں اور سیاستدانوں نے تعلیم اور صحت کو ہمیشہ نظر انداز کیا، جس کا خمیازہ آج ہم دیگر ممالک پر انحصار کی صورت میں بھگت رہے ہیں، ایک صحتمند اور تعلیم یافتہ قوم ہی معاشرے کو ترقی کی جانب گامزن کرتی ہے لیکن پاکستان کا تعلیم اور صحت کیلئے مختص بجٹ ان دونوں شعبوں میں عدم سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان خیالات کا اظہار سربراہ مالیکیولر پیتھالوجی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر ڈاکٹر سعید خان، گلگت بلتستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی پہلی سائینٹفک آفیسر قندیل زہرہ، سابق ایڈوائزر پیڈز ریسرچ لیبارٹریز ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ آغاخان یونیورسٹی شاہدہ قریشی، صدر او ڈبیلو ایس ڈی پاکستان چیپٹر پروفیسر ڈاکٹر بینا صدیقی اور جامعہ کراچی کی پروفیسر ڈاکٹر صائمہ سلیم نے ڈاکٹر اے کیو خان انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ جامعہ کراچی، آرگنائزیشن فار ویمن ان سائنس فاردی ڈیولپنگ ورلڈ، پاکستان بایولوجیکل سیفٹی ایسو سی ایشن اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے اشتراک سے 2 روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ”بایوسیفٹی نیوی گیٹنگ بایو رسک مینجمنٹ اِن پاکستان“ سے قبل کبجی جامعہ کراچی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
مقررین نے بتایا کہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد بھی دنیا بھر اور بالخصوص پاکستان میں بایوسیفٹی کے اصول، تیزی سے بڑھتے ہوئے صحت کے مسائل، اس کی بروقت تشخیص،روک تھام اور سدباب کے حوالے سے آگاہی کو فروغ دینے کیلئے قومی و بین الاقوامی سائنسدانوں کے تجربات کو سننا اور استفادہ کرنا ہے۔
اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ قومیں صرف قوانین بنانے سے نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد سے ترقی کرتی ہیں، صحت سے متعلق معلومات کے فروغ اور ریگولیٹری اتھارٹی کے کردار کے بغیر ہم اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتے، ہمیں افسانوں سے نکل کر سائنس پر اعتماد کرنا ہوگا، اسی صورت ہم صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیس ڈاکٹر سعید خان اور شاہدہ قریشی نے کہا کہ دیہی آبادی اور بالخصوص گاؤں دیہاتوں میں پبلک ہیلتھ سینٹرز، کلینک کا اور ڈاکٹر کا ہونا ناگزیر ہے کیونکہ ایک اچھے اسپتال اور لیبارٹری تک رسائی کیلئے ان افراد کو کئی میل کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
خواتین سے متعلق پوچھے گئے ایک اور سوال کے جواب میں شاہدہ قریشی نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔