دوہزارتئیس بظاہرمعاشی میدان میں بہتری کی نوید سنا کر ختم ہو رہا ہے۔لیکن اِس سال کے دوران تقریباً تیس فیصد تک بلند مہنگائی نے عوام کا جینا محال کیے رکھا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالرکا قرض پروگرام ناکام ہوا تو تین ارب ڈالر کے نئے معاہدے سے ڈولتی معاشی ناؤ سنبھلنے لگی۔ڈالر کی اونچی اڑان اور بائیس فیصد کی بلند شرح سود کے باعث کاروباری سرگرمیاں بھی ماند رہیں۔
گزشہ سال پی ڈی ایم حکومت معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہ کر سکی۔مالی سال 2022-23 میں شرح نمو 0.3 فیصدرہنےکادعوی ٹھُس ہوا تو نظرثانی سےشرح منفی 0.17 فیصدکرنا پڑی۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بتدریج کمی سے 3 ارب 26کروڑ ڈالر پرآگیا، 2022 میں یہ حجم ریکارڈ 17 ارب 48 کروڑ ڈالر تھا
2023 کےدوران درآمدات گھٹنےسےتجارتی خسارےمیں بھی 34 فیصد کی نمایاں کمی آئی جبکہ برآمدات تقریبا 2 فیصد اضافےسے 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔
رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں جی ڈی پی گروتھ 2.1 فیصد تو ضرور رہی مگر بجلی،گیس اورکھانے پینےکی اشیاءکی قیمتوں میں نمایاں اضافہ عوامی ریلیف میں رکاوٹ بن گیا۔
پیٹرول ایک سال میں ساڑھے 52 اور ڈیزل ساڑھے 48 روپے مہنگا ہوا۔ پیٹرول کی قیمت 215 سے بڑھ کر 267 جبکہ ڈیزل کی 228 سے 276 روپے پر جا پہنچی۔
ڈالر 57 روپےمہنگا،انٹربینک میں ریٹ 226 سےبڑھ کر 283 روپےتک جا پہنچا۔مئی 2023 میں مہنگائی 38 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تاہم سال کا اختتام 29.2 فیصد کے ساتھ ہو رہا ہے،یہ شرح 21 فیصد کے سالانہ ہدف سے پھر بھی زیادہ ،بنیادی شرح سود 22 فیصد کی بلند سطح تک پہنچنے سے نجی شعبے کو قرض کےحصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی، البتہ کمرشل بینکوں سے حکومتی قرضوں کے حصول میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔