’’ ساحر میرا کھلا آسمان ہے اور امروز میرے گھر کی چھت ، یہ بات اور ہے کہ چھت کھلتی آسمان میں ہے ‘‘، پنجابی زبان کی نامور شاعرہ امریتا پریتم کی زبان سے ادا ہونیوالے اس جملے میں ایک مکمل داستان سمائی ہوئی ہے جبکہ ان کے چاہنے والوں نے ان تینوں کو ایک تکون قرار دیا اور ان کی محبت کی داستان کو ہمیشہ ٹرائی اینگل سے تشبیح دی، گزشتہ روز جب امروز کے انتقال کی خبر پر نظر پڑی تو میں افسردہ ہوا تاہم، یہ سوچ کر افسردگی کم بھی ہوئی کہ ’’ امریتا پریتم، ساحر لدھیانوی اور امروز پر مشتمل تکون کے تینوں ٹکڑے بلاآخر آپس میں جڑ گئے ‘‘ ۔
امریتا پریتم، ساحر لدھیانوی اور امروز کی محبت عجیب محبت تھی، امریتا کو ساحر سے محبت تھی جبکہ امروز کو امریتا سے، شاید اس لئے تینوں کی کہانی بیسویں صدی کی کہانیوں میں ایک بڑی محبت کی کہانی قرار پائی، بعض لوگوں نے ان کی کہانی کو ہیر رانجھا، مرزا صاحبہ یا سوہنی ماہیوال سے بھی ملانے کی کوشش کی ، لیکن وہ ناکام رہے، کیونکہ محبت کی یہ کہانی دو لوگوں کے درمیان نہیں بلکہ تین لوگوں کے درمیان تھی ، اس میں ایک عجیب بات یہ بھی تھی کہ یہاں عاشق نے کبھی اپنے رقیب بارے ناراضگی ظاہر نہیں کی یا کبھی اپنے محبوب سے شکوہ نہیں کیا کہ وہ اپنے ماضی کے محبوب کی یاد میں کیوں ڈوبا رہا، اس پر کیوں لکھتا رہا، اسے کیوں سوچتا رہا اور اس سے بھی عجیب یہ کے وہ عاشق اپنے محبوب کی کسی اور سے محبت سے بھی لطف اندوز ہوا۔
وہ عاشق امروز تھا، امروز، جو 1926 میں پاکستان کے ضلع فیصل آباد جسے تقسیم سے قبل لائل پور کہا جاتا تھا کے ایک گاؤں ’’ چک نمبر 36 ‘‘ میں پیدا ہوا ، والدین نے نام اندرجیت سنگھ رکھا مگر کلاس میں جب تین ہم نام کلاس فیلو ہونے کے باعث اسے استاد کی جانب سے پکارے جانے پر مسلسل مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے خود اپنا نام امروز رکھ لیا، ایک انٹرویو کے دوران امروز نے اپنے نام بارے بتایا تھا کہ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’ آج کا دن یا حاضر ‘‘ ہے، خیر، امروز کے آباؤ اجداد کھیتی باڑی سے وابستہ رہے لیکن اسے مصوری کا شوق تھا اور فنون لطیفہ سے دلچسپی تھی، اس شوق کے باعث وہ لاہور آیا اور نیشنل کالج آف آرٹ میں داخلہ لیا لیکن جلد ہی پڑھائی سے بھی کنارہ کرگیا، بقول اس کے اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے کام پر کسی استاد کی چھاپ نہ لگ جائے۔
امروز کی امریتا سے ملاقات 1958 میں ہوئی، امریتا جو اس کہانی کا مرکزی کردار رہی، گیارہ برس کی عمر میں اسکی والدہ انتقال کرگئی جس کے بعد اس کا والد سنیاسی بن گیا اور پھر جب سولہ برس کی ہوئی تو پریتم سنگھ سے اس کی شادی کروا دی گئی جس کے بعد امریتا ، امریتا کور سے امریتا پریتم بن گئی، اور پھر یہی نام ساری عمر اس کے نام کے ساتھ چمٹا رہا، امریتا کے ساتھ پریتم کا نام تو جڑا رہا ، لیکن ان کی شادی کامیاب نہ ہوسکی اور وجہ یہ تھی کہ اسے شادی کے بعد دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود اس وقت کے اردو ادب کے بڑے شاعر اور نغمہ نگار سے محبت ہوگئی، امریتا خود بھی نامور پنجابی شاعرہ تھی، اس کی نظم جو اس نے تقسیم کے حوالے سے لکھی ’’ آج آکھاں وارث شاہ نوں ‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔
پنجابی شاعرہ کو جس اردو ادب کے بڑے شاعر سے محبت ہوئی اسے دنیا ساحر لدھیانوی کے نام سے جانتی تھی، ساحر کے لفظوں کا جادو تھا یا اس کی خاموش نظروں کا اثر کہ امریتا کو شادی کے بعد اس سے عشق ہوگیا، لیکن دونوں جب بھی ملتے تو زیادہ وقت خاموش رہتے ، ملاقات کے دوران ساحر سگریٹ پیتا رہتا اور آدھی سگریٹ پی کر بجھا دیتا لیکن جب چلا جاتا تو امریتا اس کے سگریٹ کے ٹکڑوں کو اکٹھا کرتی اور الماری میں رکھ دیتی پھر تنہائی میں ان ٹکڑوں کو چھوتی جس سے محسوس ہوتا کہ وہ ساحر کے ہاتھوں کو چھو رہی ہو، یہ محبت اتنی شدید تھی کہ امریتا نے اپنے پہلے شوہر پریتم سنگھ سے طلاق لے لی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ امریتا کی یکطرفہ محبت تھی، لیکن اس داستان سے واقف لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ساحر نے بھارتی فلم انڈسٹری کے لئے جو نغمے لکھے ان میں امریتا کا عکس تھا، ساحر نے اپنی مشہور نظم ’’ تاج محل ‘‘ ’ تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی، تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی ، میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے۔۔۔۔۔‘ جب لکھی تو وہ بھی فریم کرا کر امریتا کو بھجوائی جسے اس نے مرتے دم تک سینے سے لگائے رکھا۔
شوہر سے علیحدگی کے بعد جب امریتا نے ساحر کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سوچا تو اسے یہ خبر ملی کہ ساحر کسی اور سے دل لگا بیٹھا ہے اور اس بات سے اسکا دل اتنا ٹوٹا کہ وہ دنیا کی عظیم ادبی شخصیت بن گئی، اس نے اپنی مکمل توجہ کتابوں اور اپنی شاعری پر کرنا چاہی ، وہ لکھتی رہی اور ایک دن اپنی کتاب ’’ آخری خط ‘‘ کا سرورق ڈیزائن کے لئے کسی سیٹھی نامی پینٹر کے پاس گئی جس نے اسے عظیم مصور امروز کے بارے بتایا اور پھر امروز نے اس کی فرمائش پر اس کتاب کا سرورق ڈیزائن کر کے دیا، امروز کے مطابق انہیں ڈیزائن کے ساتھ ساتھ آرٹسٹ بھی پسند آیا ، وہ روز امریتا کو ریڈیو سٹیشن جاتے ہوئے دیکھتا تھا، ایک دن اس نے امریتا سے سکوٹر پر لفٹ کا پوچھا تو اس نے انکار نہیں کیا جس کے بعد معمول بن گیا وہ اسے روز ریڈیو سٹیشن چھوڑ کر آتا اور شام کو واپس لے کر آتا۔
دنیا کے ہر عاشق کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کرے لیکن امریتا اور امروز اس سب سے شاید بہت دور تھے، دونوں کے درمیان تعلق پنتالیس برس کے عرصے پر محیط رہا ، دونوں ایک چھت کے نیچے الگ ، الگ کمروں میں رہے، دونوں کی ایک قریبی دوست اوما ترلوک نے اپنی کتاب ’’ امریتا اور امروز ایک محبت کی کہانی ‘‘ میں لکھا کہ دونوں کے درمیان ایک محبت کا رشتہ تھا لیکن اس میں بہت آزادی تھی، الگ الگ کمروں میں رہنے سے متعلق امروز کہتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی خوشبو سے ہی لطف اندوز ہوتے تھے یعنی وہ جانتے تھے کہ ایک دوسرے کے قریب تھے۔
امریتا نے امروز کے لئے ایک پنجابی نظم ’’ میں تینوں فیر ملاں گی ‘‘ بھی لکھی، جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں کہ ’’ میں تمہیں پھر ملوں گی، کہاں، کیسے، پتہ نہیں، شاید تمہارے خیالوں کی چنگاری بن کر تمہارے کینوس پر اتروں گی، یا شاید تمہارے کینوس پر ریکھا بن کر خاموش تمہیں دیکھتی رہوں گی، میں تمہیں پھر ملوں گی، کہاں، کیسے، پتہ نہیں، سورج کی رو بن کر، تیرے رنگوں میں گھلتی رہوں گی، یا رنگوں کی بانہوں میں بیٹھ کر، تیرے کینوس پر بچھ جاؤں گی، پتہ نہیں، کیسے، کس طرح، پر تمہیں ضرور ملوں گی، میں اور کچھ نہیں جانتی، پر اتنا جانتی ہوں، کہ وقت جو بھی کرے گا، یہ جنم میرے ساتھ ملے گا، یہ جسم ختم ہوتا ہے، تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، یہ یادوں کے دھاگے، کائنات کی لمحوں کی طرح ہوتے ہیں، میں ان لمحوں کو چنوں گی، اور ان دھاگوں کو سمیٹوں گی، میں تمہیں پھر ملوں گی، کہاں، کیسے، پتہ نہیں، پر میں تمہیں پھر ملوں گی۔
امریتا کی زندگی کا حصہ بننے سے پہلے ہی امروز ان کے خوابوں میں رہتے تھے، وہ اپنی سوانح عمری ’’ رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں قارئین کو بتاتی ہیں کہ تقریباً 20 سال سے انہوں نے اپنے خوابوں میں ایک آدمی کا خاکہ دیکھا، وہ شخص جو ہاتھ میں پینٹ برش لیے کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا، اگرچہ وہ اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن یہ خواب انہیں امروز سے ملنے کے بعد ستانا چھوڑ گیا، ادھر امروز امریتا کی ساحر کے ساتھ بے پناہ محبت کے بارے بھی جانتا تھا مگر اس کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر وہ اسے چاہتی ہے تو چاہتی ہے ، میں اسے چاہتا ہوں ‘‘ ، امریتا کو لکھنے کی بہت عادت تھی، اس کی انگلیاں ہر وقت چلتی رہتی تھیں اور ایک بار امروز نے یہ بھی کہا ’’ میں جب امریتا کو سکوٹر پر لے کر جاتا تو وہ میری پیٹھ پر اپنی انگلیوں سے ساحر ساحر لکھتی تھی ‘‘۔
امریتا کے آخری ایام بڑے دکھ میں گزرے، لیکن امروز نے مکمل طور پر خود کو اس کے لئے وقف کر دیا، ان دنوں کو امریتا کے لئے بہت خوبصورت بنا دیا، اور آخری سانس تک اس کے بہت قریب رہا، امریتا کے انتقال کا دن امروز کے لئے بہت درد ناک تھا، امریتا کا عشق ساحر پہلے مرچکا تھا اور جس نے امریتا سے عشق کیا، اسی کی گود میں امریتا نے دم توڑ دیا۔
بھارتی مصنف خوشونت سنگھ نے امریتا کے انتقال پر ایک انگریزی رسالہ آؤٹ لک میں لکھا تھا کہ ’’ امریتا کا عشق تو ساحر تھا لیکن امروز نے جس طرح آخری دنوں میں امریتا کی خدمت کی کوئی اور نہیں کرسکتا تھا ‘‘ ، امریتا نے خود بھی ایک بار امروز کا ملنا بھگوان کا ملنا قرار دیا تھا۔
یہ محبت اک عجیب محبت تھی ، امروز کتنا اچھا تھا، جانتے ہوئے کہ جس میں اسکی جان بسی ہے، اس کی جان کسی اور میں ہے، حسد نا ہوس، سچا کھرا جذبہ ءعشق، امریتا کتنی خوش قسمت تھی کہ ساحر بھی زلف گرہ گیر کا اسیر اور امروز بھی گھائل بنا شمشیر، کمال قدرت دیکھیے ، ایک کو وہ نہ چھوڑ سکی اور ایک اس کو نہ چھوڑ سکا، آج تینوں دنیا چھوڑ گئے، لیکن۔۔۔۔۔۔ ’’ امریتا پریتم، ساحر لدھیانوی اور امروز پر مشتمل تکون کے تینوں ٹکڑے بلاآخر آپس میں جڑ گئے ‘‘ ۔