سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز ( آر ایس ایف ) کے درمیان شدید لڑائی کے دوران عمارتیں بھی آگ کی لپیٹ میں آگئیں۔
اتوار کو سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز میں ’ گریٹر نیل پیٹرولیم آئل کمپنی ‘ کے مشہور ٹاور کو آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں دکھایا گیا۔
SUDAN: Landmark skyscraper in Khartoum engulfed in flames
— LWNC (@LwncNews) September 17, 2023
Buildings have caught fire in Sudan's capital after heavy fighting between the army and rival forces.
Videos posted online on Sunday showed the Greater Nile Petroleum Oil Company Tower engulfed in flames.
This… pic.twitter.com/N9vWXgsvX1
غیر ملکی میڈیا کے مطابق مشہور ٹاور کے ایک معمار نے اس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ یہ واقعی تکلیف دہ ہے ‘۔
خیال رہے کہ دریائے نیل کے قریب واقع 18 منزلہ آئل فرم فلک بوس عمارت خرطوم میں سب سے زیادہ پہچانے جانے والی عمارتوں میں ایک ہے۔
رپورٹس کے مطابق عمارت میں آگ لگنے کے واقعہ میں تاحال کسی فرد کے زخمی ہونے یا ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
دوسری جانب سوڈان وار مانیٹر کے مطابق آر ایس ایف نے ہفتے کے روز فوج کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کیا تھا جس میں وزارت انصاف کا ایک دفتر بھی شامل تھا، حملے کے نتیجے میں کئی سرکاری عمارتوں میں آگ لگنے کی اطلاعات ہیں۔
This morning a fire engulfed the Greater Nile Petroleum Operating Company Tower in Khartoum, a city where the army and the paramilitary Rapid Support Forces have been battling for 5 months. This highrise is about 1.5 km from the nearest army troops in territory controlled by RSF. pic.twitter.com/oJuAu0Xykt
— Sudan War Monitor (@sudanwarmonitor) September 17, 2023
سوڈان تنازع
سوڈان میں تشدد کا آغاز 15 اپریل کو سوڈانی فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان اقتدار کے حصول کیلئے ہوا۔
اپریل میں فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد سے خرطوم اور دیگر قصبوں اور شہروں میں فضائی حملے اور زمینی لڑائیاں جاری ہیں۔
آر ایس ایف دارالحکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لڑ رہی ہے اور فوج کے فضائی حملوں کا مقصد اسکی پوزیشنوں کو کمزور کرنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس تنازعے میں لگ بھگ 7500 افراد ہلاک اور 50 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 10 لاکھ سے زیادہ لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔