سنہ 1971 کی لڑائی میں مشرقی پاکستان کے دوسرے محاذوں پر لڑائی کے ساتھ ساتھ جمال پور بھی خاص اہمیت کا حامل تھا۔
تفصیلات کے مطابق 7 دسمبر1971 کو پاکستان آرمی کی31 بلوچ رجمنٹ نے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد کی قیادت میں جمال پور فورٹریس میں دفاعی پوزیشن اختیار کی، جمال پور کا دفاعی ڈھانچہ بہت مضبوط تھا لہٰذا دشمن بھارت نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جمال پور پر حملہ کرنا بھارتی فوج کے لئے تباہ کُن ثابت ہوگا۔
9 اور اور10 دسمبر کی درمیانی شب بھارت کے 95ویں بریگیڈ جس میں ایک مراٹھہ،6 بہار، اور13گارڈز شامل تھیں، نے جمال پور پر حملے کے لئے کمر کس لی، جمال پور کے مضبوط دفاعی نظام کو کمزور کرنے کے لئے دشمن نے 7سے10دسمبر تک آرٹلری، راکٹ فائر، ہوائی جہازوں اور نیپام سے بمباری جاری رکھی، بھارت نے جمال پور کے دفاعی نظام میں کمزور پہلو تلاش کرنے کے لئے 10حملے کئے جو پاک فوج نے ناکام بنا دیے۔
بھارتی بریگیڈ کمانڈر ہردت سنگھ کلیر نے جب 10 دسمبر کو اپنے اندازے کے مطابق بھرپور بمباری کی تو اُس نے 31بلوچ کے کمانڈنگ آفیسر کو خط لکھ کر کہا کہ آپ کی صورتحال نااُمید اور مایوس کُن ہے۔آپ ہتھیار ڈال دیں ورنہ آپ کو تباہ کرنے کےلئے ہمیں مِگ جہازوں کی40پروازیں الاٹ کر دی گئی ہیں۔
یہ پیغام مکتی باہنی کے قاصد ”زحل حق منشی“ کے ذریعے پاکستانی کمانڈنگ آفیسر تک پہنچایا گیا،
اس خط کے جواب میں لیفٹیننٹ کرنل سلطان نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے بھارتی بریگیڈئر کو کہا کہ خط لکھنے کی بجائے آگے بڑھو اور مقابلہ کرو، ہمیں شکست دینے کے لئے 40 پروازیں ناکافی ہیں اور اور طنزاَ یہ بھی کہا کہ "مکتی باہنیوں کو میری طرف سے پیار"۔
بھارتی فوج کے حصار کو توڑنے کےلیے لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد نے دس اور گیارہ دسمبر کی درمیانی شب دلیرانہ حملہ کر کے بھارتی حملے کو ناکام بنا دیا، اس معرکے میں پاک فوج کے 233 بہادر آفیسر اور جوان بشمول رینجرز، رضاکار، پولیس اور گنرز نے جام شہادت نوش کیا۔
لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد کی قیادت میں پاک فوج 21 روز تک دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی رہی، بعد ازاں لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد کو ان کی دلیرانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔
پاک فوج کے شہداء اور غازیوں کا یہ کارنامہ غیر معمولی بہادری، لگن، حب الوطنی اور بہادری کی درخشاں مثال ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔