محکمہ صحت سندھ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ (PILL)، سندھ ٹاسک فورس اور مانچسٹر یونیورسٹی کے اشتراک سے منشیات کے استعمال کی روک تھام اور علاج کی پالیسی کے نفاذ کے منصوبے Substance Misuse Prevention and Treatment Policy Implementation Plan کی افتتاحی تقریب آج بروز ہفتہ، کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی کے معین آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ جس میں نگراں وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد نیاز، نگراں وزیر داخلہ و جیل خانہ جات برگیڈئیر حارث نواز، نگراں وزیر قانون عمر سومرو اور نگراں وزیر تعلیم و خواندگی، کالج ایجوکیشن رعنا حسین نے خصوصی شرکت کی۔
چیئرمین سندھ ٹاسک فورس آن ڈیمانڈ ریڈکشن آف ڈرگس اینڈ ہارم فُل سبسٹنس کنٹرول(Sindh Task Force on Demand Reduction of Drugs and Harmful Substance Control) پروفیسر عمران بشیر چوہدری کی سربراہی میں ٹاسک فورس میں شامل محکمہ صحت ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز سندھ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ این سی ڈیز، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ- سی ڈی سی، سندھ ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ، سندھ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ، سندھ پولیس، اینٹی نارکوٹکس فورس، سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی، پراونشل لیڈ ایچ آئی وی کنٹرول پروگرام، پی پی ایچ آئی، آغا خان یونیورسٹی اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں تقریب میں شامل تھیں۔
مزکورہ منصوبے کے تحت صوبہ سندھ میں منشیات کے استعمال کے وسیع چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی گئی ہے، جس میں روک تھام، علاج اور بحالی جیسے اقدامات شامل ہیں ۔ چئیرمین ٹاسک فورس پروفیسر عمران بشیر چوہدری نے تقریب سے افتتاحی خطاب میں کہا کہ دنیا بھر میں سالانہ تقریبا 300 ملین افراد منشیات کا استعمال کررہے ہیں اور تقریبا ایک ملین افراد تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ایک ملین سے زائد ایسے لوگ ہیں جو خود سگریٹ نہیں پیتے لیکن سگریٹ پینے والے افراد کے ساتھ بیٹھتے ہیں جس سے وہ بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ کی صورتحال تشویشناک ہے جس کے لیے محکمہ صحت، تعلیم اور قانون سمیت دیگر مختلف شعبہ جات پر مشتمل ٹاسک فورس ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر سلمان شہزاد نے کہا کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے مواقع 20 فیصد سے بھی کم ہیں، ہم اسٹگما کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی سی کے پروگرامز ڈیزائن کیے گیے ہیں، خیبر پختون خوا میں بھی فیملیز پروگرامز متعارف کروائے گئے ہیں، اندرون سندھ میں بھی ہم ان منصوبوں کے تحت پائیداری کو ممکن بنائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بپلک پرائیویٹ پارنٹر شپ کے بغیر معاشرے میں منشیات کے استعمال کے خلاف اقدامات ممکن ہی نہیں ہیں۔
وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ منشیات کے استعمال کے خلاف ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے اچھا اقدام اٹھایا، ہم تعلیمی اداروں میں منشیات کی رسائی کو کیسے روک سکتے ہیں؟ ڈاؤ یونیورسٹی کی ہی مثال لے لیں، ماضی میں ڈاؤ یونیورسٹی کے باہر رکشہ ہوتے تھے، تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ منشیات کی فروخت میں ملوث تھے، اسی طرح بائیکیا پر بھی بہت سے افراد کھانے کے بجائے یونیورسٹی میں منشیات سپلائی کرنے آتے تھے جس پر ہم نے رینجرز کی مدد طلب کی اور اسکی روک تھام کو ممکن بنایا۔ انھوں نے کہا کہ اے این ایف تو منشیات کے خلاف اقدامات میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے لیکن ریٹیل کی طرف سے ہمیں اقدامات لینے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے آن لائن کال سینٹرز بھی بنائے گئے ہیں۔
نگراں صوبائی وزیر تعلیم رعنا حسین نے کہا کہ کراچی میں جگہ جگہ ویپنگ کی دکانیں کھلی ہوئیں ہیں، ایک کو دکان بند کروانے کی دھمکی دو تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے دوسری ساری دکانیں بند کروائیں۔ انھوں نے کہا کہ طلبا بہت فخر سے ویپنگ کرتے ہیں جیسے یہ کوئی فیشن ہے،اب تو دکان دار مختلف فلیورز سجائے بیٹھے ہیں، وزیر صحت اور قانون ان دکانوں اور منشیات کے استعمال کے خلاف ایسا قانون بنائیں کہ یہ مستقل طور پر بند ہوجائیں۔
بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے منشیات کے استعمال کو ممنوع قرار دینا میری ذمہ داری ہے، سندھ اور بالخصوص کراچی میں منشیات کی صنعتیں بند کردی ہیں جبکہ بلوچستان سے کراچی کا بارڈر بھی سیل کردیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نگراں کابینہ کے چار وزراء یہاں موجود ہیں تو یقینی طور پر موقع کی مناسبت سے اچھی حکمت عملی ضرور تیار کی جائے گی تاہم ضروری ہے کہ والدین بچے کی کیفیت میں تبدیلی پہچان کر ان کے تشخیصی ٹیسٹ کروائیں، والدین اور اساتذہ آگاہی بھی پھیلائیں، جیلوں میں بھی منشیات کے عادی افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں، ہم اس کے خلاف ایک ٹاس فورس تشکیل دیں گے اور جلد پولیس اسٹیشنز میں بھی کریک ڈاؤن کریں گے۔
نگراں وزیر قانون سندھ عمر سومرو نے نگراں وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد اور انکی ٹیم کو منشیات کے استعمال کے خلاف اقدام اٹھانے پر انھیں مبارکباد دی اور کہا کہ ایک ٹاسک فورس کے ساتھ بہت سے پلانز کی بھی ضرورت ہے، ہماری اطلاعات کے مطابق بہت سے پولیس افسران ایسے ہیں جو آئس کی فیکٹریوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں تاہم ہمیں اپنے اسٹاف کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں پارکس وہ جگہیں ہیں جہاں تجاوزات ہیں، ہمیں ان پارکس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
نگراں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے تقریب سے خطاب کیا کہ جب ہمیں وزارت ملی تو عمل تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال ہورہا ہے،مگر اندازہ تب ہوا جب میں لیاری کے بحالی مرکز میں گیا،وہاں ایک چھوٹا بچہ دیکھا میرے لیئے وہ مناظر حیرت انگیز تھے،میں نے پوچھا تو پتا چلا کہ اس کے بہنوئی نے اس بچے کو منشیات کا عادی بنایا،مجھے اے این ایف سے پتا چلا کہ آئس آن لائن بھی فروخت رہی ہے،جبکہ کپڑوں میں کلف اور شیمپو کی بوتلوں میں بھی با آسانی دستیاب ہے،ایک بچی کے والدین کو علم ہوا کہ بچی منشیات کا استعمال کررہی ہے،تو انہوں نے اس بچی کے باہر جانے پر پابندی لگادی، پھر اس کو ہوم ڈیلیوری کی گئی، باقاعدہ والدین نے کیمروں میں دیکھا کہ ایک شخص نے گھر میں منشیات کو پھینکا اور بچی نے جاکر اٹھالیا، یہ کسی ایک محکمہ سے ممکن نہیں، ہم سب متحد ہوکر ہی منشیات کے استعمال کی روک تھام کے اقدامات کرسکتے ہیں،نارتھ کراچی میں 200 بستروں پر مشتمل غیر فعال اسپتال اے این ایف کو بحالی مرکز بنانے کے لیے دے دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کے ایک سیمینار میں انھوں نے طلباء سے پوچھا کہ آئس کے بارے میں جانتے ہیں تو سب نے کہا جانتے ہیں اور جب پوچھا کہ یہاں مل جاتی ہے تو چند ایک نے ہاں میں جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ والدین اور اساتذہ بچوں کی ذہنی کیفیت میں تبدیلی اور دیگر علامات کو سمجھیں تو بروقت چیزوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، ہم ہر ضلع میں ایک ایک بحالی مرکز بھی فعال کررہے ہیں اور اس حوالے سے قانون سازی کرکے نگراں وزیر اعلی سندھ کو بھیجیں گے۔
تقریب کے بعد نگراں وزیر داخلہ سندھ برگیڈئیر (ر) حارث نواز کا نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز کے ہمراہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس گیسٹروانٹرولوجی (سیاگ) کا دورہ کیا۔ نگراں وزیر صحت و سربراہ سیاگ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے برگیڈئیر ر حارث کو مختلف وارڈز کا معائنہ کروایا اور عمارت کی پرانی حالت کی تصاویر بھی دکھائیں۔ اس موقع پر برگیڈئیر حارث نے سیاگ جیسے جدید ترین ادارے کی سول اسپتال میں موجودگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاگ کی تعمیر و معیاری علاج عزت کے ساتھ کے سلوگن کو نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا جارہا ہے، ادارے کی عمارت کو قومی ورثے میں بحال کرنا اور جدید طریقۂ علاج کے ذریعے مفت علاج قابل تعریف ہے۔ بعد ازاں نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے سول اسپتال میں ایم آر آئی مشین اور ڈینٹل یونٹ کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ سول اسپتال میں ایم آر آئی کا افتتاح کیا، سول اسپتال کراچی سمیت سندھ کے دیگر اسپتالوں میں ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کو فعال کریں گے، ڈینٹل ڈیپارٹمنٹ میں اچھی طبی سہولیات ضروری ہے، سول اسپتال کی بہتری کا کریڈٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) سول اسپتال ڈاکٹر خالد بخاری کو جاتا ہے، عباسی شہید اسپتال محکمہ صحت سندھ کے ماتحت نہیں لیکن اس کو بہتر کرنے کے لیئے بلدیہ عظمٰی کراچی کے حکام سے بات کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ اسپتالوں کی آڈٹ رپورٹ کے ذریعے غلط سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی، ہم کاروائیاں بھی کررہے ہیں لیکن ہر بات میڈیا پر نہیں آتی، ہر جگہ اس طرح کا آڈٹ ہونا چاہیئے تاکہ حقیقت سب کے سامنے آئے۔ انھوں نے کہا کہ نظام درست کرنا صرف دوروں سے ممکن نہیں ہوسکتا، پوری قوم کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے، سسٹم مانیٹرائز ہونے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں کسی کو نوکری سے فارغ نہیں کیا جاسکتا ہے اور معطل کرنے سے ان میں بہتری نہیں آتی جبکہ نجی اداروں میں نوکری کھونے کے خوف سے افرد میں بہتری آتی ہے۔