ملک کی اعلیٰ عسکری قیادت نے میجر محمد اکرم شہید، نشان حیدر کو ان کی 52ویں شہادت کی برسی پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئےکہا ہےکہ آئیے ان ہیروز کو یاد رکھیں جنہوں نے مادر وطن کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، قوم کو اپنے بہادر بیٹوں پر فخر ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاداور تینوں افواج کے سربراہان نے میجر محمد اکرم شہید، نشان حیدر کو ان کی 52ویں شہادت کی برسی پر شاندار خراج عقیدت پیش کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام مشکلات کے باوجود بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میجر محمد اکرم شہید نے 1971 کی جنگ کے دوران لڑائی میں دشمن کے ان گنت حملوں کو بہادری سے پسپا کیا۔
میجر اکرم کی اس بے مثال مزاحمت نے ہندوستانی فوج کو اس وقت تک مادر وطن کے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھنے دیا جب تک وہ شہید نہیں ہوئے۔ ایسی مثالی جرات ہمارے مادر وطن کے محافظوں کی پہچان ہے۔ عسکری قیادت نے کہا کہ میجر محمد اکرم کا یوم شہادت مادر وطن کے دفاع کے لیے افواج پاکستان کی جانب سے دی گئی غیر معمولی قربانیوں کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔
میجر ملک محمد اکرم 4 اپریل 1938ء کو کھاریاں کے گاؤں ڈنگہ میں پیدا ہوئے، میجر محمد اکرم کے خاندان کے بیشتر افراد کا تعلق فوج کے کسی نہ کسی شعبے سے ہونے کے باعث ان کو سپاہ گری اور دلیری وراثت میں ملی تھی۔
میجر محمد اکرم نے 1961ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی جہاں وہ 4 فرنٹئیر فورس رجمنٹ کا حصہ بنے اور 1970 میں میجر کے رینک پر فائز ہوئے، 1971 میں مشرقی پاکستان میں پاک فوج اور معصوم پاکستانیوں کیخلاف دہشتگردی کرنے کے لئے بھارت نے مکتی باہنی کے دہشتگردوں کی تربیت کا آغاز کیا۔ پاک فوج کے بہادر سپاہیوں نے اپریل 1971ء سے بھارتی سرپرستی میں شروع ہونے والی سازش اور دہشتگرد کارروائیوں کا جس دلیری سے مقابلہ کیا وہ فرض کی لگن، جذبہ ایمانی اور حب الوطنی کی بے مثال داستان ہے۔
پاکستان پر بھارتی حملے کے وقت مشرقی پاکستان میں وسائل اور طاقت کے عدم توازن کے باوجود میجر محمد اکرم شہید جیسے جوانوں کا جذبہ ایمانی ہی تھا کہ کئی گنا طاقتور دشمن کوبارہا ہزیمت اٹھانا پڑی۔
میجر محمد اکرم اور ان کے ساتھی 8 ماہ سے جاری مشکل ترین لڑائی میں دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے اور بھوکے پیاسے رہ کر بھی بدترین حالات کا نہ صرف مقابلہ کرتے رہے بلکہ وقت پڑا تو ان بہادر سپوتوں نے اپنی جانیں بھی وطن پر قربان کر دی۔
معرکہ ہلی
دشمن نے بھاری جنگی سازوسامان کی مدد سے ضلع دیناج پور ہلی سیکٹر پر حملہ کردیا، جدید ٹینکوں کے ساتھ ساتھ دشمن کے حملے میں 300 بھارتی توپیں بھی شامل تھیں، اس شدید ترین حملے کا سامنا ائیر سپورٹ کے بغیر پاک فوج کا ایک انفنٹری ڈویژن کر رہا تھا۔
میجر محمد اکرم اور ان کی قلیل نفری نے اسلحہ کی کمی اور کمک سے محروم ہونے کے باوجود شجاعت کے حیران کن کارنامے دکھاتے ہوئے ان حملوں کو بڑی بہادری سے پسپا کیا۔
دشمن کے لئے ہلی سیکٹر پر قبضہ کرنا انتہائی اہم تھا جس کی بدولت وہ مشرقی پاکستان کے باقی ماندہ علاقوں کی سپلائی معطل کرنا چاہتا تھا، میجر محمد اکرم اور ان کے ساتھیوں نے بے سروسامانی کی حالت میں کئی روز تک بھارتی پیش قدمی کو روکے رکھا۔
اس اہم ترین معرکے میں میجر محمد اکرم نے لازوال جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کیا اور وطن عزیز سے محبت کا حق ادا کرتے ہوئے آخری وقت تک لڑتے رہے اور بالآخر شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے۔
پاکستان کے اس عظیم سپوت کو مشکل ترین حالات میں فرض کی ادائیگی اور جان کا نذرانہ پیش کرنے کے اعتراف میں نشان حیدر کے اعزاز سے نوازا گیا۔
دشمن کا اعتراف
معرکہ ہلی میں میجر محمد اکرم شہید اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں کی بہادری اور جوانمردی کا اعتراف دشمن نے بھی کیا۔ بھارتی کمانڈر انچیف جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے 16 دسمبر 1973ء کو بھارت کے ہفت روزہ اسٹرٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں معرکہ ہلی کے حوالے سے کہا کہ انڈین آرمی نے ہلی کے مقام پر بھرپور حملہ کیا مگر اسے سخت مقابلے اور پرزور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑااور اسی محاذ پر سب سے زیادہ خون ریز لڑائی لڑی گئی۔ ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کوئی فوج مجبوری اور بے سروسامانی کی حالت میں بھی طویل عرصے تک ایک بڑی قوت کے سامنے دلیری سے لڑتی رہے۔