آج کل جنسی اور صنفی تشدد پر بہت باتیں کی جارہی ہیں، اور کیوں نہ کی جائیں؟ہمارے معاشرے میں جنسی، صنفی،ذہنی، جسمانی ہر قسم کا تشدد بڑھتا بھی تو جا رہا ہے، تو پھر بات کرنا تو بنتا ہے!! لیکن باتوں، باتوں میں اس بات کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آیاوہ کیا وجوہات ہیں جو تشدد میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں، اور پھر اُن وجوہات کو ختم کیسے کیا جا سکتا ہے۔
چلیے جنسی تشدد اور جدید دور پر کچھ بات کر لیتے ہیں، بھئی یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ جنسی تشدد میں معاشرتی بے راہ روی کابھی بڑا عمل دخل ہے، اور بے راہ روی میں جن چیزوں کا دخل ہے انہیں بے دخل کیا جانا بہت ضروری ہے،نئے دور میں پنپتی معاشرتی بے راہ روی میں بہت سی ایسی باتیں بھی شامل ہیں جنہیں کسی گنتی شمار میں نہیں لایا جارہا، مثلاََ جدّت پسندانہ سوچ کے حامل تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی جیسے معاملات بھی جنم لے سکتے ہیں اورکہیں نہ کہیں لے بھی رہے ہیں، متعدد اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں "ڈانس پارٹیاں" ہونے کی خبریں آرہی ہیں، جہاں ڈانس کے ساتھ ساتھ اوربھی بہت کچھ ہونے کی راہ پوری طرح ہموار رہتی ہے، اسی طرح سے، نئے دور میں سلام دعا کے رواج میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے،لیکن اس کمی کو با آسانی پُربھی کیا جا سکتا ہے کہ مثال کے طور پر،جدید ترین تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹنے والے لڑکے، لڑکیاں اگر سلام کے بجائے "ہیلو،ہائے" کہنا شروع کر دیں تو انُ کے بڑے انہیں سمجھا ئیں کہ بیٹا پہلے سلام کرلو بعد میں ہیلو، ہائے بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔
پھر جدید دور میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین کی بڑی تعداد نتِ نئے فیشن اختیار کرتی چلی جارہی ہے، اور اس فیشن کا سب سے زیادہ اثرکپڑوں پر آیا ہے، نئے دور کے لباس نے دوپٹہ تو سروں سے اُتروایا ہی، گلے میں بھی نہ پہننے دیا، پھر قمیضیں بھی بغیر آستینوں کے آنے لگیں، اور شلواریں۔۔۔ارے بھائی شلوارو ں کو ٹخنوں سے اُوپر رکھنے کا حکم مردوں کے لیے ہے خواتین کے لیے نہیں۔
پھر دوسری جانب وہ مرد حضرات جنہیں کوئی کام دھندا نہیں، اُن کا ذہن اُن کی جیبوں کی طرح خالی ہے، ایسے مردوں کی جیبیں تو خالی ہیں لیکن نئے دور کے موبائل اُن کے پاس خوب ہیں جس پر 24 گھنٹے نئے دور کی تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت بھی انہیں حاصل رہتی ہے، پھرشیطان کے گھر کے مصداق "خالی ذہن" نیٹ پر نت نئی مصروفیات تلاش کرتے ہیں اور پھر وہ تلاش انہیں تیزی سے شیطانی جال میں پوری طرح جکڑ لیتی ہے۔
نئے دور میں ایک اور غلط کام یہ بھی ہوا کہ کمرشل سیکس جیسی اصطلاح نے معاشرے میں اپنی جگہ بنا لی، سیکس ورکرز دھڑلے سے اپنا کام کر رہے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کر پارہا، ایک ڈر اب یہ بھی ہے کہ کمرشل سیکس کے بعدکہیں "کارپوریٹ سیکس" نہ لانچ ہو جائے۔
بھئی نئے دور میں اور بہت سے اچھے کام بھی تو ہو سکتے ہیں، مثلاََیہ دیکھا جائے کہ کونسے ایسے جدید طریقے اختیار کیے جائیں کہ بھوکوں کو تین وقت کا کھانا فوراََ ملِ جائے، بے گھر اور بے لباس افراد کے لیے کوئی ایسی "ایپ " بنائی جائے جو فٹافٹ ٹریس کر لے کہ ایسے بیچارے لوگ کس لوکیشن پر موجود ہیں، غریبوں کو علاج معالجے کی جدید ترین سہولیات دستیاب ہوجائیں، تعلیمی نظام کی بہتری ا ور عوام کو انصاف وحقوق کی فراہمی کے لیے جدید ترین نظام کو سسٹم میں شامل کیا جائے، نئی ٹیکنا لوجی کا استعمال" کرپشن "کے خاتمے کے لیے بھی کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔نئے دور میں یہ سب چیزیں ہو جائیں تو کیا ہی بات ہو۔
نئے دور میں پنپتی معاشرتی بے راہ روی کے دفاع میں ایک بیانیہ یہ بھی موجود ہے کہ "دنیا میں نیکی، بدی، گناہ، ثواب دونوں موجود ہیں، آنکھوں میں شرم و حیا ہو یا بے شرمی، ذہنیت صا ف رکھی جائے یا گدلی، موبائل میں فحاشیت ہو یا پاکیزگی، شراب پی جائے یا کولڈڈرنک، جوا کھیلیں یا کرکٹ فٹبال، زِنا ہو یا نکاح، فیملی پلاننگ کی جائے یا احکام شریعت پر عمل، سارے آپشن اوپن ہیں، اب یہ انسانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے کس آپشن کا انتخاب کرتے ہیں۔۔۔" اس بیانیے کو اگر درست مان بھی لیا جائے تو یہ مکمل نہیں ہے، مکمل ایسے ہوگا کہ منفی آپشن ہمیشہ کھُلے کے کھُلے ہی نہیں رہنے چاہئیں انہیں فورََابند کیا جانا چاہیئے، رب العالمین نے اشرف المخلوقات کے رُتبے پر فائز انسانوں کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ اپنی اصلاح اور بہتری کے لیے فوری اور بروقت فیصلے کریں، اپنے لیے صحیح راستے کاانتخاب کریں اور اُسی راہ پر چلتے چلے جائیں اور فلاح پا جائیں۔
لہذا یہاں یہ سمجھا جانا بہت ضروری ہے کہ نہ صرف جنسی اورصنفی بلکہ ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کے لیے ہمیں صرف باتیں ہی نہیں بلکہ عملی اقدمات بھی کرنا ہوں گے، نئے دور کی اچھی باتوں کو اپنانا اور باقی ماندہ جدّتوں سے دور رہنا ہوگا، ہماری معاشرتی اقد ار، ہماری روایات،تہذیب، ثقافت، اخلاقیات، اور سب سے بڑھ کر ہماری مذہبی تعلیمات جو سبق دے رہی ہیں اُسے یاد کرنا ضروری ہے، زندگی کو اُس کی صحیح سمت میں چلنے دیں اور پھر اثر دیکھیں،راہ گزر کانٹوں نہیں بلکہ خوشبودار پھولوں سے سجی ملے گی۔