سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میں سالانہ ایک لاکھ اکتالیس ہزار بچے ماں کا دودھ میسر نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں جانے کا انکشاف ہوا ہےکمیٹی نے غذائیت کے لیے مصنوعی خوراک کی حوصلہ شکنی پر زور دیا۔
رپورٹس کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی صحت کا اجلاس چیئرمین کمیٹی ہمایوں مہمند کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں انجرڈ ٹریٹمنٹ بل دوہزار تئیس پیش کیا گیاسینیٹر مہرتاج روغانی نے حادثات میں زخمی افراد کو اسپتالوں میں فوری طبی امداد کا ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نجی اسپتالوں کے ساتھ معاہدے کرے تاکہ قیمتی جانیں بچائی جاسکیں ۔
نجی اسپتالوں میں حادثات کا شکار مریضوں کے بل حکومت کی طرف سے ادا کیے جانے پر سیکرٹری وزارت صحت نے کہا کہ اس عمل کے لیے بجٹ کی ضرورت ہوگی۔سینیٹر جام مہتاب نے کہا کہ ایمرجنسی میں ہر صورت میں مریضوں کو ٹریٹمنٹ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بل میں بھی موجود ہے، زندگی بچانا اول ہو میڈیکو لیگل کے سسٹم اور فریم ورک پر غور ترجیح ہونا تشویشناک ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ عوامی ضرورت کے تحت اس بل کو منظور کرنا ہو گا۔ سینیٹر مہر تاج نے کمیٹی میں انکشاف کیا کہ ایک لاکھ اکتالیس ہزار بچے ماں کا دودھ نہ ملنے کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ مصنوعی خوراک سے بچوں میں غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی چھتیس ماہ سے کم عمر بچوں کو ڈبے کا دودھ اور خوراک دینے کی حوصلہ شکنی ضروری ہے بل میں تجویز کیاگیا ہے کہ مینوفیکچررز کے خلاف چار سال قید اور پانچ ملین جرمانے کو قانون کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔
کمیٹی میں وزارت کی جانب سے اسپتالوں کو بجٹ سے انکار کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس پر وزارت صحت کے حکام نے بتایا کہ بجٹ کے لیے فنڈز موجود نہیں ہے فنڈز ریلیز ہونگے تو ادا کیے جائیں گے چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پولی کلینک کے حوالے سے تفصیلی جواب طلب کر لیا۔