اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پرعملدرآمد کیس کی گزشتہ سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے گزشتہ سماعت کا 5 صفحات پر مشتمل حکمنامہ جاری کر دیا۔
عدالت نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو 29 نومبر کو دن 11 بجے طلب کرلیا۔ وزیرداخلہ، وزیر دفاع، وزیر انسانی حقوق، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو بھی اسی روز پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں کے69 بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ، ہراساں اورجبری طور پر گمشدہ کیا گیا، ریکارڈ کے مطابق کچھ لاپتہ طلبہ گھروں کولوٹ آئے لیکن کم از کم 50 اب بھی غائب ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے بلوچ طلبہ کے تحفظات کے ازالے کیلئے کمیشن تشکیل دیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ اداروں کی جانب سے جبری گمشدہ بلوچ طلبہ اب بھی لاپتہ ہیں۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے اس مسئلے پر کوئی مثبت اقدام نہیں اٹھایا، 21 سماعتوں کے باوجود اس مسئلے پر مثبت نتائج نہ آنا آئین پاکستان کی توہین ہے۔
تحریری حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتیں مظلوم کیلئے امید کی آخری کِرن ہوتی ہیں، ریاستی عہدیداروں کے اس سُست رویے نے اعلی عدالتوں پر عوامی اعتماد متزلزل کر دیا ہے، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وفاقی حکومت اس معاملے سے غیرسنجیدگی سے نمٹ رہی ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار حکومتِ پاکستان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روک نہیں پا رہی، عدالت کے پاس وزیراعظم، وزیر دفاع اور داخلہ کو طلب کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ وزیراعظم، وزراء اور سیکرٹریز پیش ہو کر بتائیں کہ معاملے کو اہمیت کیوں نہیں دے رہے؟ امید ہے وزیراعظم، وزراء اور سیکرٹریز ٹھوس نتائج کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں گے، امید ہے عدالت کو بتایا جائے گا کہ لاپتہ طلبہ اپنے گھروں میں واپس پہنچ گئے ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کوئی طالبعلم ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہو تو متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔