ریاست ہائے متحدہ امریکا کی 50 ریاستیں، چین میں 23 صوبوں کی سطح پر 34 انتظامی ڈویژن ہیں۔ جبکہ ہمسائیہ ملک افغانستان کے 34 صوبے، بھارت کی 28 ریاستیں ہیں۔ اگر اب نظر دوڑائیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تو ہمارے پاس 4 صوبے، دارالحکومت کا علاقہ ہے جو مزید اضلاع، تحصیلوں اورآخر میں یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں۔ ان دنوں پاکستان میں نئے صوبوں سے متعلق ایک بارپھر بحث کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ وطن عزیز کو نئے صوبوں کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں نئے صوبے بنانے سے ملک ٹوٹے گا نہیں بلکہ یہ مزید مضبوط ہوگا۔ تعمیر وترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ زیادہ صوبوں کے قیام سے لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے۔ علاقائی اور مقامی ترقی کا فروغ ہوگا اور بحثیت مجموعی مقابلے کی فضا بھی بنے گی اور انصاف کا بولا بالا ہوگا۔
پاکستان کے موجودہ سیٹ اپ کے تحت صوبوں کو آبادی کے شدید دباؤ اور بجٹ کے باعث مسائل حل کرنے میں کامیابی نہیں مل رہی۔ پاکستان میں صوبوں کی تقسیم اور نئے صوبے بنانے سے اور خاص طورپر چھوٹے صوبے بنانے سے گڈگورننس کا قیام یقینی بن جائے گا اور اس سے بڑھ کر وسائل کی بھی منصفانہ تقسیم کا عمل بھی شفاف ترین ہوگا جس کے بے پناہ فوائد بھی حاصل ہوں گے اور بجٹ کا مؤثر استعمال یقینی بن سکےگا جس سے غربت میں بھی کمی آئے گی۔ ان سب کے مثبت اثرات براہ راست عوام کی زندگیوں پر پڑیں گے۔
ہر نئے صوبے میں تعلیم کے فروغ کے لیے نئی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں، اسپتال بنائے جائیں کیونکہ مریضوں کا رش دارالحکومت کے اسپتالوں پر ہے جس سے ان اسپتالوں پر شدید دباؤ ہے اگر ہر علاقے میں بڑے بڑے صنعتی زون قائم کیے جائیں گے تو اس سے روزگار اور ترقی کے مواقع بڑھ سکیں گے۔ نئے صوبے بننے سے مقامی حکومتوں کی کارکردگی میں بھی نمایاں بہتری آئے گی اور گراس روٹ لیول پر بھی عوام کی زندگیوں میں نمایاں بہتری متوقع ہے۔
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا اور گنجان آباد صوبہ ہے پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ جبکہ رقبہ کے لحاظ سے یہ دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ صوبے کے 41 اضلاع ہیں جبکہ 10 ڈویژن ہیں۔ صوبائی دارالحکومت لاہور اور یہ صوبے کا سب سے بڑاہے۔ صوبے کے دیگر بڑے شہروں میں فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، گجرات، سرگودھا، سیالکوٹ، ملتان اور بہاولپورشامل ہیں۔
سندھ 30 اضلاع اور 7 ڈویژن پرمشتمل صوبہ ہے۔ صوبائی دارالحکومت کراچی جو سب سے بڑا شہر ہے اسے منی پاکستان بھی کہاجاتاہے۔اس کےدیگر اہم شہروں میں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص اور شہید بے نظیرآباد شامل ہیں۔ بات کی جائےخیبرپختونخواکی تویہ 36 اضلاع اور 7 ڈویژن پرمشتمل صوبہ ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور ہے اس کے دیگر اہم شہروں میں،مردان ،ایبٹ آباد،سوات،مینگورہ،بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ شامل ہیں۔
صوبہ بلوچستان اسٹرٹیجک اعتبار سے پاکستان کا اہم ترین اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس کے 38 اضلاع اور آٹھ ڈویژن ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ ہے اس کے دیگر اہم شہروں میں گوادر، خضدار، مستونگ ، قلات ، نوشکی ، تربت، سبی،پشین ، لورالائی شامل ہیں
اب زرا نظر ڈالتے ہیں اسمبلبیوں میں نشستوں کی تعداد پراس اعتبار سے قومی اسمبلی کی کل نشستیں 336 ہیں۔
پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 141 ہے سندھ میں قومی اسمبلی کی نشتیں 61 ہیں اسطرح خیبرپختونخوا میں تعداد 45 اوربلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 نشستیں جبکہ 3 نشتیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حصے میں آتی ہیں اسطرح اگر صوبائی نشستوں پر نظر ڈالیں تو پنجاب اسمبلی کی نشستیں 371 جبکہ سندھ اسمبلی کی صوبائی نشستیں 168 اور خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلی کی نشستیں 145 اور بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 65 ہے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں کے مجموعی اضلاع کی تعداد 145 ہے جبکہ تمام صوبوں کے ڈویژنز کی تعداد 32 ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے پہلے پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا، ویسٹ پاکستان اور ایسٹ پاکستان پھر پاکستان کو چار صوبوں میں تقسیم کیا گیا،آج جب ملک کی آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے تویہ حقیقت واضح ہے کہ صرف چار صوبے اتنی بڑی آبادی کے مسائل حل کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں سامنے ہیں، جہاں کم آبادی پر چھوٹے صوبے یا ریاستیں قائم ہیں تاکہ عوام کو بنیادی سہولتیں جلد اور مؤثر طریقے سے فراہم کی جا سکیں۔ جتنا چھوٹا انتظامی یونٹ ہوگا، اتنی ہی بہتر انداز میں حکمرانی ممکن ہوگی۔
نئےصوبے بننےسے وزرائےاعلیٰ، آئی جی پولیس اورچیف سیکریٹریز پر بوجھ کم ہوگا۔ عدالتوں پر دباؤ میں کمی آئے گی، تھانہ کلچر میں بہتری آئے گی اور ایف آئی آر کے اندراج کا عمل شفاف ہوگا۔ اسی طرح صحت، تعلیم اورانفرا
اسٹرکچر میں بہتری آئے گی۔ پانی کے بحران اور ڈیمز کے مسائل مؤثر طور پر حل ہوں گے، این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم آسان ہوگی، رشوت، کمیشن اور چور بازاری جیسے ناسور کا خاتمہ ہوگا، جبکہ سرکاری اخراجات میں کمی کے ذریعے قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ بھی کم ہو گا۔
آئین پاکستان کے مطابق، کسی صوبے کی تقسیم کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کو دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور کرنا ہوتی ہے،اس کے بعد قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کی جاتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی پہلے ہی نئے صوبے بنانے کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔ اب قومی اسمبلی اس پر عملدرآمد کی پابند ہے۔
چاروں صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر کم سے کم تین صوبوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے، اپر، سینٹرل اور ساوتھ اسطرح اگر اس فارمولے پر اتفاق رائے ہوجائے تو ابتدائی طورپر ہر صوبے میں تین نئے صوبے بنیں گے اور پہلے مرحلے میں چاروں صوبوں میں بارہ نئے صوبے بنیں گے اور اس کے بعد دوسرا مرحلہ کچھ عرصے بعد شروع کیا جاسکتا ہے کیونکہ نئے صوبے بننا شارٹ ٹرم نہیں بلکہ طویل المدتی منصوبے کے تحت ہی ہی بنیں گے۔
سیاسی جماعتوں کےمؤقف میں بھی یہ حقیقت نمایاں ہے کہ مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف،آئی پی پی اورایم کیوایم نئے صوبوں کے قیام کے حق میں ہیں۔ پیپلزپارٹی سندھ کی تقسیم کی مخالف ہےلیکن پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہےاورپیپلزپارٹی جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبے کی حامی ہے۔جماعت اسلامی بھی کراچی سمیت ملک میں نئے صوبوں کی مشروط آمادگی ظاہر کر چکی ہے۔ اسطرح خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی قیادت اور اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ کیا جائے تاکہ وہ بھی اس اہم معاملے پر اپنا ان پٹ دیں اور اتفاق رائے کے ساتھ اس اہم معاملے پر آگے بڑھا جاسکے
نئے صوبے کیسے بنائےجائیں؟ اس کی تقسیم کا فارمولہ کیا ؟کتنے صوبے بننے چاہییے؟ اس پرپارلیمنٹ اور متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں بڑے پیمانے پر تعمیری بحث کا سلسلہ شروع کیا جائےتاکہ قومی اتفاق رائے قائم کیا جاسکے۔
اہم نکتہ یہ ہےکہ نئےصوبے لسانی بنیادوں پرنہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پرقائم کیےجائیں تاکہ قومی یکجہتی متاثر نہ ہو اور طرز حکمرانی میں بہتری آئے۔اس مقصد کےلیےآئین میں ترمیم ناگزیر ہے،اورمجوزہ طور پر 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا جانا چاہیے کہ وہ ملک میں نئے صوبے تشکیل دے سکے۔
نئے صوبے محض سیاسی نعرہ نہیں بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ جب تک ملک کے بوجھ کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم نہیں کیا جاتا، عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے اور پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔
حسنین خواجہ شعبہ صحافت سے گزشتہ 25 سال سے وابستہ ہیں جو مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں کام کرچکے ہیں اور ان دنوں سما ٹی وی میں بطور کنٹرولر نیوز اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔






















