امریکی سینیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جامع ٹیکس اور اخراجات کے بل جسے ’ون بگ بیوٹی فل بل‘ کا نام دیا گیا ہے، کو 51 کے مقابلے 50 ووٹوں سے منظور کرلیا ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 940 صفحات پر مشتمل بگ بیوٹی فل بل پر سینیٹ میں چار روز تک شدید بحث ہوئی جبکہ بل میں 2017 کے ٹیکس کٹس کو مستقل کرنے، ٹپس اور اوور ٹائم تنخواہوں پر ٹیکس ختم کرنے، امریکی ساختہ گاڑیوں کے قرضوں پر سود کی چھوٹ اور سینئر شہریوں کے لیے ٹیکس کٹوتیوں کی تجویز شامل ہے۔
تاہم، اس کے ساتھ ہیلتھ کیئر پروگرام (میڈیکیڈ) اور فوڈ ایڈ پروگرام (SNAP) میں 1.2 ٹریلین ڈالر کی کٹوتیاں اور میڈیکیڈ کے لیے کام کے تقاضوں کی شرائط بھی تجویز کی گئی ہیں جن پر ڈیموکریٹس نے شدید تنقید کی۔
کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق یہ بل اگلے دس سالوں میں قومی خسارے میں 3.3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرے گا جبکہ ٹیکس ریونیو میں 4.5 ٹریلین ڈالر کی کمی اور اخراجات میں 1.2 ٹریلین ڈالر کی کٹوتی ہوگی۔
بل میں قرض کی حد کو 5 ٹریلین ڈالر تک بڑھانے کی تجویز بھی شامل ہے تاکہ ڈیفالٹ سے بچا جا سکے۔
سینیٹ سے منظوری کے بعد بل کو حتمی منظوری کے لیے ایوان نمائندگان بھیج دیا گیا ہے جہاں دوبارہ ووٹنگ ہوگی۔
صدر ٹرمپ نے اسے اپنی دوسری مدت صدارت کی سب سے اہم قانون سازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ امریکی معیشت کو مضبوط کرے گا۔
دوسری جانب ٹرمپ کے پرانے اتحادی ایلون مسک نے اس بل کو "ملکی معیشت کے لیے تباہ کن" قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ ملازمتوں کو نقصان پہنچائے گا۔
بل کی منظوری سے قبل سینیٹ میں ’ووٹ-اے-راما‘ سیشن ہوا جہاں ڈیموکریٹس کی ترامیم مسترد ہوئیں جبکہ بعض ریپبلکن سینیٹرز نے بھی خسارے اور میڈیکیڈ کٹوتیوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔





















