بھارت کے زیرقبضہ جنت جیسی وادی کشمیر میں پہلگام پر حملے کی کہانی ابھی تک تصدیق کا سہرا پہننے سے عاری ہے اور پہلے دن سے ہی جنم لینے والے وہی سوال اب بھی تشنہ ہیں کہ یہ حملے بھارت کی اپنی حکومت کے علاوہ کون کرسکتا ہے اور کسی اور کو یہ حملے کرکے کیا مل سکتا ہے؟ کشمیروں کے لئے اس جنت کو جہنم بنانے والے ہندوستان کی اس حملے کے حوالے سے دنیا میں خراب ہوتی صورتحال اب دگرگوں ہوچکی ہے کیونکہ وہ نہ صرف اربوں ڈالر کے جہاز، دیگر تکنیکی سامان بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کا اعتماد بھی کھوچکا ہے جس کا اندازہ اس کے اپنوں کی جانب سے یوٹیوب پر پاکستان کے ساتھ جنگ میں ہار کے بعد بننے والی ویڈیوز ہیں۔ ان سب ویڈیوز میں موجود ہندوستانی مایوس ہیں، غصہ ہیں اور جنجھلاہٹ کا شکار ہیں انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ جس پاکستان کو خود سے حقیر سمجھ کر مسلنے کو چلے تھے اس کے ہاتھوں ایسی ہزیمت اٹھائیں گے۔ ان کے وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں یہ واضح محسوس کیا جارہا ہے کہ وہ یا تو پاکستان پر حملے کی ایک اور غلطی کرینگے یا پریشر مزید بڑھا تو اپنی ہی زندگی کا چراغ اپنے ہاتھوں گُل نہ کرلیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس آپشن ہی کیا ہے؟
جنگ کے میدان میں ہارنے اور اپنے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کے کنویں میں گرنے والے بھارت کی بہت سی عادتیں اب بدلنے کو ہیں لیکن سازش کرنے کی اس کی عادت جاتی ہوئی نہیں لگ رہی۔ اس نے دس مئی کو پاکستان سے پٹنے کے بعد جس طرح افغانستان میں طالبان حکومت کو اپنے جال میں پھنسانے اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے وہ صرف اسی کا خاصہ ہے۔
اپنے ہاں علاج کے لئے آنے والے افغانستان کے وزیرمملکت برائے داخلہ ابراہیم صدر کی ہندوستان میں موجودگی کو اپنے مقاصد کے لئے لیک کرکے اس نے کچھ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ پاکستان کو یہ احساس دے سکے کہ اس نے ابھی ہار نہیں مانی خود اگر مار کھالی ہے تو کیا ہوا افغانستان کو استعمال کرکے وہ پاکستان کو پھر بھی تنگ کرسکتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں جن لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ابراہیم صدر کیوں ہندوستان میں موجود ہیں اور کہاں ان کے شوگر اور دیگر امراض کا علاج ہورہا ہے ان کو یہ سب معلوم ہے اور وہ ہندوستان کی اس کوشش سے بالکل بھی پریشان نہیں ہیں ایک ایسا ابراہیم صدر بے چارہ جس نے ہندوستان جانے سے پہلے پاکستان کا ویزہ لے کر وہاں سے علاج کرانے کی کوشش کی اور طورخم کا بارڈر دونوں ممالک کے بیچ کے تنازعے کے باعث بند ہونے سے آخرکار وہ دیگر چار لوگوں کے ہمراہ ہندوستان پدھار گیا اور وہاں اس کا علاج جاری ہے۔ اس کے علاج کا جو بھی نتیجہ نکلے گا وہ تو دیکھی جائے گی لیکن اس کی ہندوستان میں موجودگی کا فائدہ مکار ہندو لینا چاہ رہا ہے اور اس میدان میں بھی منہ کی کھا چکا ہے۔
اس کے وزیرخارجہ جے شنکر اور ان کے افغان ہم عہدہ امیر خان متقی کے مابین پاکستان کے ساتھ جنگ کے بعد رابطے کو بھی اس نے اپنے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کہاں معلوم تھا کہ دس مئی کو اسے روندنے والے پاکستان کا مورال ہر میدان میں بہت ہی ہائی ہوچکا ہے اس لئے اسے افغانستان اور ہندوستان کے اس رابطے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا پاکستان کو تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ افغان طالبان نے سرکاری طور پر پہلگام میں چند لوگوں کی ہلاکت کی تو مذمت کی لیکن انہوں نے پاکستان میں اپنے حمایتی گروہوں پر ہندوستانی حملوں میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی شہادت پر خاموشی اختیار کی۔ افغانستان کے طالبان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں وہ اس پر بھی خاموش ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ جنگ میں خود کو اسرائیل کے برابر گرداننے پر ہی کچھ کہہ سکیں۔
لیکن جیسا کہتے ہیں ناں کہ ہر مشکل کے ساتھ کچھ آسانیاں بھی آتی ہیں تو یہی پاکستان کے ساتھ ہوا اس کے ہاں افغان طالبان کی وکالت کرنے والی تنظیموں پر جب بھارت نے بمباری کی اور افغان سرزمین پر ان کے حامی طالبان پھر بھی خاموش رہے تو ان تنظیموں کو غم اور غصے کی بدولت سانپ سونگھ گیا کہ جن کے لئے وہ اپنے ملک سے الجھ جاتے تھے وہ ان کے مارے جانے پر بھی یوں خاموش ہیں اب کے بعد اور کچھ ہو نہ ہو یہ تنظیمیں اور ممتاز مذہبی شخصیات کس منہ سے پاکستان سے مطالبہ کرسکیں گے کہ وہ افغانستان میں طالبان کو اپنا بھائی سمجھ کر ان کی مدد کرے۔
بلاگ تخلیق کرنے والے کا تعارف
محمود جان بابر ایک تجربہ کار اور ممتاز صحافی ہیں جنہیں صحافت کے شعبے میں 27 سال سے زائد کا وسیع تجربہ حاصل ہے اور اس وقت سما ٹی وی پشاور کے بیورو چیف کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















