"قدرت ہمارے لیے بہت فیاض تھی، ایک جانب وسیع سمندر جس میں وافر شکار موجود تھا تو دوسری جانب شیر دریا کی ٹھاٹیں مارتی موجوں کے ساتھ مچلتی پھسلتی آنے والی زرخیز مٹی ، جوڈیلٹا کے چوڑے سینے پرمحو استراحت ہوتی تو بلند پہاڑوں کے بیش قیمت معدنیات کی تاثیرہر سال لاڑ کے خطے کومزید خوش حال بنا دیتی۔ یہاں کی خوش حالی ضرب المثل بن چکی تھی۔لوک گیتوں میں فخر و انبساط کے ساتھ اس خطے سے وابستگی کو پیش کیا گیا
اسین ماٹھو لاڑ جا
دریاء جی پا چھاڑ جا
اوائل مئی کا سورج پوری شدت سے چمک رہا تھا جب ہم نے کراچی سے بدین کا رخت سفر باندھا۔آبی جارحیت چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے انہی زمینی حقائق کو جاننے کے لیے گاوں شیخ کیریو کے باشندوں سے بات کی جہاں نوجوانوں کی اکثریت آبای پیشہ چھوڑ کر اب مچھلی اور کیکڑے پکڑ رہی ہے۔
ضلع بدین کے سب سے آخری ساحلی گاوں، شیخ کیریو کے ستر سالہ معمر اللہ بچایو کہہ رہے تھے کہ ماہی گیری ہمارا آبائی پیشہ نہیں تھا ، صدیوں سے مویشی پالنا اور کھیتی باڑی کرنا ہی ہمارا زریعہ معاش تھا۔ پچاس گھرانوں پر مشتمل اس گاوں کی کل آ بادی پانچ سو ہے۔ فصلوں میں گنا، ٹماٹر، چاول، سبزیاں، جانوروں کا چارہ اور پھل دار درخت شامل تھے۔ سبزے اور چارے کی اس قدر فراوانی تھی کہ ہر مہینے میں ایک بار دودھ کا لنگر کیا جاتا تھا۔ ہمارے گاوں کا نام ،ایک صوفی بزرگ شیخ کیریو بھنڈاری کے نام سے منسوب ہے جن کا سلسلہ غوث بہاؤالدین زکریا کے روحانی نسب سے جڑا ہوا ہے۔ گاؤں والے ان کے مزار پر اجتماعی شکرانے کے طور پر دودھ کالنگر بطور نذرانہ پیش کیا کرتے تھے جسے سارا گاؤں عقیدت سے پیا کرتا تھا۔ . جب پانی کی کمی واقع ہوئی تو زمین کھاری ہو گئی اور فصلیں مزید کاشت نہیں کی جا سکتیں۔ اب تو صرف چاول ہی اگائے جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب بارش ہوتی ہے اور مطلوب پانی دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن اب ہمارے نوجوان گزر بسر کے لیے مچھلی اور کیکڑے پکڑتے ہیں۔ دریا پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں کبھی اس قدر خشک نہ ہوا تھا جتنا اب ہے۔
۔اسکول کی سہولت شاید عیاشی سمجھی جاتی ہے اس لیے یہاں موجود ،بچے بھی سارا دن گاوں کی کچی دھول بھری گلیوں میں کھیلتے ہیں۔مچھلی پکڑنے کے لیے ہر فرد کے پاس کشتی کی سہولت نہیں ۔
جاوید علی ماہی گیری کرتے ہیں دن بھر میں بیس سے پچاس عدد کیکڑے پکڑ کر پانچ سو سے ہزار روپیے کما لیتے ہیں۔ سادہ لوح جاوید علی کیکڑوں کو چینیوں کی مرغوب غذا قرار دیتے ہوے حکومتی سرپرستی میں فش اور کریب فارمنگ کے قیام کے خواہشمند ہیں۔
وکیپیڈیا کے مطابق.
1883 سے، زمینی کٹاؤ اور سمندری مداخلت کی وجہ سے یہ 2018 میں تقریباً 12,900 مربع کلومیٹر (5,000 مربع میل) سے 92 فیصد سکڑ کر تقریباً 1,000 مربع کلومیٹر (390 مربع میل) رہ گیا ہے۔1940 کی دہائی سے، بڑے پیمانے پر اوپری آبپاشی کے کاموں کے نتیجے میں ڈیلٹا کو کم پانی ملا ہے جس میں ڈیلٹا تک پہنچنے سے پہلے ہی دریاے سندھ کے بہاؤ کا بڑا حصہ ریت کے ٹیلوں کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ ماحول اور مقامی آبادی دونوں کے لیے تباہ کن رہا ہے۔ پاکستان میں آنے والے 2010 کے سیلاب کو ڈیلٹا کے ماحولیاتی نظام اور مقامی آبادی کے لیے خوش آئیند سمجھا گیا کیونکہ وہ تازہ پانی کی ضرورت کو پورا کر رہا تھا۔
ساون خاصخیلی کے مطابق میٹھے اورتازہ پانی کی بھاری مقدار میں فراہمی کے باعث یہ علاقہ بہت خوشحال تھا پہلے، سمندر وہاں موجود نہیں تھا ، یہ تقریباً 50 کلومیٹر دور تھا۔ تاہم، 1999 میں آنے والے طوفان A-2 کی وجہ سے، جس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی، لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (LBOD) کے حفاظتی پشتے تباہ ہو گئے، اور سمندر نزدیک آ گیا اور زرعی اراضی کی تبا ہی شروع ہو گی۔
سوئی گیس صرف بدین کے اہم قصبوں میں دستیاب ہے جبکہ دیہات میں اس کی رسائی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا کی کوششوں سے اس کی منظوری دی گئی۔ اس کے بعد سے موجودہ سیاسی سیٹ اپ نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
لاڑہیومنٹیرین اینڈ ڈیولپمنٹ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈایریکٹر اقبال حیدر نے بتایا کہ ایل ایچ ڈی پی کی طرف سے یونین کونسل بھوگرہ میمن، تعلقہ ضلع بدین میں مختلف منصوبوں کے تحت سرگرمیاں شروع کی گی ہیں۔ گاؤں شیخ کیریو اور آس پاس کے دیہات حاجی حاجم، علی محمد ملاح، اللہ بچاو ملاح، روپا ماڑی، صدیق میندھرو، ایسو ملٓاح ، بنھو ملاح شامل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سمندری پانی کو روکنے کے لیے پتھروں کے ساتھ 2.6 کلومیٹر حفاظتی بنداور پشتے کی تعمیر کی گئی اور اس کے ذریعے میٹھے پانی کی 2 جھیلوں کو بحال کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ سمندر برد ہونے والی 1400 ایکٹر زرعی زمین کو بحال گیا۔ کاشت کے لیے 35 ایکڑ بنجر زمین کو قابل استعمال بنایا گیا۔ پینے اور گھریلو استعمال کے مقصد کے لیے پانی کے دو تالاب بنائے گئے ۔زراعت کے مقصد کے لیے 3 واٹر کورسز بنائے گئے۔ خواتین کے لیے کریب فارمنگ کے 6 ڈھانچے قائم کیے جا رہے ہیں۔ گھریلو سطح پر خواتین کے لیے پولٹری فارمنگ کی سہولت فراہم کی گئی۔ ماہی گیری کے لیے انجن اور جال کے ساتھ 10 کشتیوں کی فراہمی. کسانوں اور ماہی گیروں کی تربیت ابتدائی وارننگ، لائیو اسٹاک مینجمنٹ، ، موسمیاتی تبدیلی کی موافقت،
انڈس کنسورشیم کے سی ای او حسین جروار کے مطابق، ڈیلٹا میں رہنے والی آبادیاں، اپ اسٹریم پر کیے گئے فیصلوں میں شمو لیت یارضامندی کے بغیر ان کے نتائج کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ ان کے پانی کے حقوق کا تحفظ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے، یہ انصاف، بقا اور مساوات کا معاملہ ہے۔ میٹھے پانی کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے سمندر کے کٹاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اب تک سندھ میں 4 لاکھ ایکڑ اراضی سمندر برد ہوچکی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2050 تک بدین اور ٹھٹھہ کے اضلاع سندھ کے نقشے کا حصہ نہیں رہ سکتے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















