بغیر ثبوت الزام تراشی درحقیقت بھارت کا ایک پرانا حربہ اور روایت ہے جسے پاکستان نے بہترین سفاتکاری اور حکمت عملی کی بدولت ناکام بنا دیاہے اور اب نئی دہلی کے پاس دنیا کو بیچنے کیلئے کوئی قابل اعتبار بیانیہ باقی نہیں رہا ، اس کے باوجود، دنیا بھر میں ایک "ہمیشہ شکایت کرنے والے" ملک کے طور پر پہچانے جانے والے بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ رویہ صرف دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھا رہا ہے ۔
بھارت اس بچے کی مانند برتاؤ کر رہا ہے جو جان بوجھ کر اپنا کھلونا توڑ دیتا ہے اور پھر آس پاس موجود سب کو الزام دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس بار نئی دہلی نے حد پار کرتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (IMF) سے رجوع کیا، اور مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کے جاری 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا جائزہ لے۔ تاہم، آئی ایم ایف نے بھارت کو اس کی حدود یاد دلاتے ہوئے واضح کیا کہ ادارے کا ایگزیکٹو بورڈ اجلاس حسبِ شیڈول 9 مئی کو ہی ہوگا۔
بین الاقوامی سطح پر بارہا شرمندگی کے بعد، مودی حکومت نے اب ایک اور محاذ پر پاکستان کی معیشت کو نشانہ بنانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت پاکستان کو ایک بار پھر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی ’گری لسٹ‘ میں شامل کروانے پر غور کر رہا ہے۔لیکن یہ اتنا آسان نہیں کہ کیچڑ اچھالا جائے اور امید کی جائے کہ وہ چپک جائے۔ بھارت کو FATF کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہوگی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف مالی بے ضابطگیوں سے متعلق کوئی ٹھوس اور قابلِ اعتبار ثبوت بھی فراہم کرنا ہوگا لیکن بھارتی جھوٹ کے پاوں ہی نہیں ہیں جسے دنیا پہلے ہی ٹھکرا چکی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور یہ سمجھے کہ اس کا سارا مقدمہ صرف جذبات اور پراپیگنڈہ پر مبنی ہے، جس کی کوئی قانونی یا اخلاقی بنیاد نہیں۔ اگرچہ 20 سے زائد ممالک کی طرف سے تعزیتی پیغامات نئی دہلی کو وقتی تسلی دے سکتے ہیں، لیکن یہ پیغامات کسی ثبوت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ اسلام آباد مسلسل یہی مطالبہ کر رہا ہے کہ ثبوت فراہم کیے جائیں، اور پاکستان نے غیر جانبدار تحقیقات میں تعاون کی پیشکش بھی بارہا دہرائی ہے۔
بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزامات عائد کر کے، بھارت پہلے ہی بین الاقوامی برادری کی نظروں میں خود کو بدنام کر چکا ہے۔ اب وقت ہے کہ نئی دہلی خیالی دشمنوں کا پیچھا چھوڑ کر سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، اگر وہ دنیا میں اپنا وقار برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ہمدردی کو فائدے میں بدلنے کی بھارت کی کوششیں اسے کہیں نہیں لے جائیں گی۔ بھارتی حکومت اور اپوزیشن میں موجود سنجیدہ عناصر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عالمی فورمز پر بار بار جھوٹے دعوے کر کے بھارت اپنی ساکھ خطرے میں ڈال رہا ہے۔
پاکستان کوئی کرائے دار نہیں جسے نئی دہلی صرف چند فون کالز یا خطوط بھیج کر نکال باہر کر سکے۔ جتنا بھارت اس مصنوعی غصے پر انحصار کرتا ہے، اتنا ہی وہ اپنی سفارتی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ اب وقت ہے کہ نئی دہلی الزام تراشی بند کرے اور اپنے طرزِ عمل کا ازسرنو جائزہ لے، قبل اس کے کہ اس کا سارا ڈھونگ ٹوٹ جائے اور وہ خود تنہائی کا شکار ہو جائے۔





















