دنیا میں جنگیں اب صرف بندوقوں اور ٹینکوں سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب تو اصل جنگ دماغوں کو کنٹرول کرنےکی ہے، نظریات کی تقویت اور بیانیوں کے وائرل ہونے کی ہے۔ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، وہاں ایک جرنلسٹ کا قلم، ایک استاد کی کلاس لیکچر اور ایک یوٹیوبر کی ویڈیو ایک گولی سے زیادہ مہلک اور دور رس اثرات رکھتی ہے۔یہ چیزیں نوجوانوں کو گھائل کر رہی ہیں۔
کسی بھی ملک کےبیانیے کی جنگ کا آغاز نوجوان ذہنوں سے ہوتا ہے امریکہ و مغرب، بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک میں اکیڈمک لابنگ باقاعدہ منصوبہ بندی سے کی جاتی ہے اساتذہ کو سیمنارز اور ریسرچ فنڈنگ کے ذریعے ایسے بیانیے سکھائے جاتے ہیں جو ان ممالک کے سیاسی مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔اور وہی اساتذہ پھر ان ذہنوں کو بدلتے ہیں جو ابھی کچی پختگی میں ہوتے ہیں جن کا میچورٹی لیول ابھی اس حد تک نہیں ہوتا کہ وہ ان چیزوں کاتجزیہ کریں۔
یہی اساتذہ پھر اپنے طلبہ کو بتاتے ہیں،مغرب انسانی حقوق کی بات کرتا ہے انڈیا میں جمہوریت ہےکشمیر ایک انڈیا کا اندرونی مسئلہ ہے اسرائیل کا دفاع اس کی بقا ہے ویسٹرن ویلیوز انسانی حقوق کا معیار ہیں،امریکہ ایک حقیقی سپر پاور ہے،اسرائیل غزہ میں حماس کیخلاف ہے،امریکہ افغانستان میں دہشتگردوں کیخلاف ہےانڈیا پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کام کرتا ہے، طالبعلم غیر محسوس طریقے سے انہی نظریات کو قبول کر لیتے ہیں دوسرا رخ نہیں بتایا جائے گا کہ انڈیا مسلمانوں کو ناجائز قتل کرتا ہے،انڈیا پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہےامریکہ نے افغانستان سے وسائل چوری کئے ہیں مغرب نے انسانی حقوق کے نام پر کئی لوگوں کو بھوکا مارا ہے۔
یہ طلباء و طالبات جب پریکٹیکل زندگی میں آتے ہیں تو ایک بڑی تعداد میڈیا اور صحافت کا رخ کرتی ہےفیلڈ جوائن نہ بھی کریں تو ان سے ٹچ رہتے ہیں یہاں ایک نیا کھیل شروع ہوتا ہےلابنگ ایجنسیز انہیں مغربی تھنک ٹینکس میں فیلوشپ، اسرائیلی فنڈڈ میڈیا ویب سائٹس پر کالم لکھنے کی دعوت،انڈین،امریکن مغرب و اسرائیلی میڈیا میں اشاعت کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور بدلے میں بیانیہ فروخت ہوتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ داخلی پالیسیاں ہیں چین ایک استعماری طاقت ہے،مسلمان ممالک ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان جرنلسٹس کو باقاعدہ بڑی بڑی ادائیگیاں کی جاتی ہیں کبھی کانفرنس کے اخراجات ہوتے ہیں کبھی رائٹنگ فیس اور کبھی انویٹیشنل وزٹس کے نام پرپھرکبھی ورکشاپ کروائی جاتی ہیں۔
پھر یہ جرنلسٹ سوشل میڈیا پر بیانیہ لیکر اثر انداز ہوتے ہیں،نوجوان ان کے کالم، وی لاگز اور ٹاک شوز دیکھتے ہیں اور آہستہ آہستہ انہی کے بیانیے کو علم سمجھنے لگتے ہیں بیانیہ بدل گیا، نظریہ ہار گیا اور سچ دفن ہو گیا۔لوگوں کی تعداد ملکی سالمیت کیخلاف ہونا شروع ہو جاتی ہے، یہ ایک خاموش جنگ ہے، جس کا عملی جنگی میدان کلاس رومز، نیوز رومز اور سوشل میڈیا ہے اور دشمن صرف وہ نہیں جس کے پاس بندوق ہو وہ بھی ہے جو آپ کے قلم سے آپ کے نظریات چھین لے۔بیانیہ وہ طاقت ہے جو غلامی کو پالیسی اور آزادی کی جنگ کو انتہا پسندی بنا دیتا ہے۔