سفارت کاری کے کچھ اصول ہوتے ہیں بیٹھنے،اٹھنے مصافحہ کرنے اور چلنے پھرنےکے انداز بھی اصولوں میں شمار ہوتے ہیں ،آپ کسی افیشل کیساتھ کس انداز میں گفتگو کرتے ہیں اورآپ کا انداز ہر ایک اصول کو عیاں کرتا ہے کہ آپ کس اصول کو اپنا رہے ہیں اور کیا آنے والے مہمان افیشل کو پیغام دے رہے ہیں۔مصافحہ کرنے کا انداز بھی کئی پیغامات دے رہا ہوتا ہے، یہ سفارت کاری (diplomacy) باریکیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔کسی مہمان سفارت کار کا استقبالیہ مہمان کی قدر و قیمت کی پہچان ہوتی ہے اور ریاستی تاثر کو عیاں کر رہا ہوتا ہے کہ وہ استقبال کرتے ہیں کس انداز میں کرتے ہیں اگر استقبال نہیں کرتے تو اس کی پوزیشن دیکھی جاتی ہے۔
اگر کسی ایک ریاست کی دوسری ریاست کیساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہو اور اس میں کوئی تیسرا فریق ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے یعنی ایک کا پیغام دوسرے کو پہنچا رہا ہوتا ہے ڈپلومیسی میں shuttle diplomacy یا پھر Proximity Talks کا اصول لگتا ہےجب یہ اصول لگتا ہے پھر اگلا مرحلہ دونوں فریقین کے حکام کیساتھ ملاقاتیں کرنے کا آتا ہے، اگر ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ملک کو میزبان ملک جان بوجھ کر ایئرپورٹ یا اعلیٰ سطح پر استقبال نہیں کرتا تویہاں strategic snub کا فارمولا لگتا ہے جس کا مطلب اور اشارہ ہوتا ہے کہ میزبان ملک کہہ رہا ہے ہم رسمی طور پر خوش نہیں ہیں، لیکن غیر رسمی طور پر بات چیت کی گنجائش باقی ہے۔1970میں عرب اسرائیل کے پیغامات جو ہنری کسنجر لیکر آتا رہا ہے وہ اسی فارمولے کا حصے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا اقدام اٹھانے سے کس ملک کی پوزیشن مضبوط سمجھی جائے گی؟جس ملک نے ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ملک کے افیشل کا استقبال نہیں کیااس کی ظاہری پوزیشن بھاری ہوتی ہے وہ استقبال نہ کر کے دنیا کو یہ دکھا رہا ہوتا ہے کہ اس کو خود پر اعتماد ہے، کسی ملک کیطرف نہیں دیکھ رہا بلکہ آزادی پالیسی پر عمل کر رہا ہے وہ ثالثی حکام کی آمد و عالمی دباؤ کو خاطر خواہ میں نہیں لے رہا۔
ایران اور سعودی عرب کی پراکیسز چل رہی تھی پاکستان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا ہے2014 میں نواز شریف کی حکومت بنی پہلا دورہ سعودیہ عرب کا تھا ریڈ کارپٹ کیساتھ شہزادہ ولی عہد نے استقبال کی، اور وہاں ملاقاتوں کے بعد نواز شریف کا جہاز سیدھا ایران گیا کوئی ہائی پروفائل وزیراعظم کا استقبال کرنے نہیں آیابلیو کارپٹ بچھایا گیا، 2018 میں عمران خان کی حکومت آئی عمران خان نے سعودیہ کا دورہ کیا بہترین انداز میں استقبال کیا گیا اور وہاں ملاقاتوں کے بعد عمران خان سیدھا ایران گئے ایران میں کوئی استقبال نہیں کیا گیا۔
دونوں پاکستانی وزیراعظم کے دورے ناکام رہے لیکن ایک چیز جو ہر بار کی گئی کہ سعودیہ نے فل پروٹوکول دیکر بات ماننے سے انکار کر دیا ، ایران نے پرتپاک استقبال نہ کرنے کےبعد مذاکرات کرنے کی حامی بھر لی۔ ایران پوزیشن میں تھا وہ کسی افیشل کا استقبال بھی نہیں کرتا تھا سعودیہ خوف زدہ ہو کر مذاکرات ملتوی کرتا رہا لیکن آخر کار چین نے دونوں کو بیٹھا دیا۔ اور خوف کو ختم کر کےدونوں ممالک کے تعلقات بہتر کروائے۔
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے پاکستان پہنچے لیکن ان کا ہم منصب یا دفتر خارجہ کا ترجمان استقبال کیلئے نہیں گیا ، ایرانی سفیر نے اپنے افیشل کا استقبال کیا۔ پاکستان نے عالمی دنیا میں سفارت کاری کے ذریعے ایسا شور مچا کر پوزیشن حاصل کر لی ہے جو جنگ جیتے بغیر پاکستان نے اپنا بیانیہ بہترین انداز میں پیش کیا ، پاکستان کی جانب سے ایرانی حکام کا استقبال نہ کرنا یہ پیغام ہے کہ ہم آزادانہ طور پر کھڑے ہیں، انھوں نے حملے کا سوچا ہم کسی کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ سیدھا جنگ میں کود پڑیں گے مذاکرات میز بند کر دیں گے۔