پہلگام جموں و مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی، جس سے علاقائی ماحول ایک دم تبدیل ہو گیا، انڈیا نے حسب عادت الزام پاکستان پر ڈال دیا پاکستان نےاس واقعے کی تحقیقات کیلئے تیسرے فریق (neutral third party) سے انکوائری کروانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بھارت پر ہمیں اعتماد نہیں ہے پہلگام حملے کی صاف شفاف تحقیقات کروائی جائیں پاکستان کے اس بیان پر پوری دنیا میں صرف چین نے حمایت کی ، الغرض سعودی عرب نے پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کی بلکہ انڈیا کوکہا کہ مذمت کرتا ہوں اور حمایت کا اعلان کیا یہاں تک بات کو نہیں روکا بلکہ کہا کہ تعاون کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔
پاکستان اس وقت تنہا اس الزام کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے لیکن پاکستان نے بہترین ڈپلومیسی اپناتے ہوئے تھرڈ پارٹی سے انکوائری کا مطالبہ کردیا، پاکستان کی تیسرے فریق سے انکوائری کروانے کے مطالبے سے بھارت پر دباؤ بڑھانے اور اس واقعے کے حوالے سے عالمی سطح پر اپنے موقف کو مضبوط کرنے کی بہترین کوشش ہے ،یہ پاکستان کا ایک اسٹریٹجک اقدام ہے جس کا مقصد ہے کہ بھارت کو دفاعی پوزیشن میں لایا جائے،بھارت کبھی بھی تیسرے فریق سے انکوائری کیلئے راضی نہیں ہوگا کیونکہ اندر خاتے چلنے والی چیزیں بھارت کا پردہ فاش کر دیں گی ، بھارت پاکستان کے اس مطالبے کو اپنی قومی سلامتی و خودمختاری کا جواز بنا کر مسترد کر دے گا۔
پاکستان تیسرے فریق سے انکوائر ی کروا کر ہمیشہ کیلئے بھارت کے بیانیہ کو دفن کرنے پر آگیا ہےاس مطالبےسےعالمی طاقتیں سمجھ جائیں گی کہ پاکستان غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے حقائق سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے مگر انڈیا اس سے بھاگ رہا ہے انڈیا نے ہمیشہ پاکستان پر ہر حملے کا الزام بغیر ثبوتوں کےعائد کیا اور پاکستان کو ہمیشہ عالمی دنیا کے سامنے دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی، جس سے ہمیشہ علاقائی ماحول بدل جاتا ہے اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن (balance of power) متاثر ہو جاتا ہے،عالمی طاقتوں کو انڈیا کے اس الزام کو عام طور پر نہ لیں یعنی روٹین کی چیز نہیں سمجھنی چاہئے بلکہ صاف شفاف تحقیقات ہو جائیں گی ،تو اس خطے میں امن قائم ہو گا۔
سفارت کاری میں ہمیشہ تحمل مزاجی چلتی ہے وہ چاہےریاستی مفاد ہو جنگ کی ٹیبل ہو ،اگر آپ کے اندر تحمل مزاجی نہیں ہے اور آپ کی جارحانہ پالیسی ہے تو آپ ہار جاتے ہیں انڈین ریاست اس وقت جارحانہ پالیسی پر انحصار کر رہی ہے اور پاکستان تحمل مزاجی سے اپنا کیس عالمی طاقتوں کے سامنے رکھ کر خودکو ان کے سامنے پیش کر رہا ہے اور انکوائری کیلئے تعاون کرنے کی آفر بھی کر دی ہے یعنی پاکستان کی تحمل مزاج پالیسی عالمی طاقتوں کے سامنے ایک بہترین و مضبوط بیانیہ بنا رہی ہے،جس سے بھارت کیلئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں عالمی دباؤ بڑھ رہا ہےاور عالمی طاقتیں دیکھ رہی ہیں کہ معاملہ کی اصل کیا ہے۔
پاکستانی ڈپلومیٹس جس انداز میں ایک ایک قدم پھونک کر چل رہے ہیں یہ پاکستان کا موقف دنیا کے دماغوں میں پیوست ہو رہا ہے جس سے بھارت پر عالمی دباؤ بڑھے گا اور وہ اپنا اعتماد کھوتا جائے گا، ایران ، چین اور روس امریکہ کے ساتھ یہی کچھ کر رہے ہیں امریکہ سفارتی سطح پر اپنا اعتماد تقریباکھو چکا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جو خود کو ڈیل میکر کہتا تھا روس اس کو سفارتی تحمل مزاجی سے گھٹنے ٹیکنے پر لے آیا ہے،چین نے سوفٹ ڈپلومیسی اپنا کر امریکہ کو زیر کر دیا ہے ایران بھی تحمل مزاجی سے امریکی دھمکیوں کومدنظر رکھ کر دنیا کو ایک پیغام دے رہا ہے کہ ہم ڈپلومیٹس سوچ رکھتے ہیں مذاکرات کیلئے آئے ہیں جس نے دھمکیاں دیں ہیں وہ جمہوریت کا باپ ہے ۔
بھارت بھی جمہوریت کا حامی بنتا ہے لیکن وہ بھی امریکہ کیطرح جارحانہ پالیسی پر اتر آیا ہے پاکستان کو اس وقت جارحانہ نہیں بلکہ سوفٹ ڈپلومیسی کی ضرورت ہے ان کو آرام آرام سے ایک بیانیہ پر پھنسائیں ، اب تک بھارت نے عالمی قوتوں کا ایسے ہی اعتماد حاصل کیا ہے بھارت کا مقابلہ ڈپلومیسی کے ذریعے کیا جائے اور اس کے اعتماد کو امریکہ کی طرح زیر کیا جائے تب جنگ کی صورت میں بھارت کیساتھ عالمی طاقتیں نہیں کھڑی ہوں گی۔
اگر پاکستان سوفٹ ڈپلومیسی سے انڈیا کو زیر کرتا ہےتب ابھرتی ہوئی معیشت یا بڑی اکانومی والا بیانیہ بھی نہیں چلے گا انڈیا امریکہ سے بڑی معیشت تو نہیں ہے وہ سفارتی سطح پر اعتماد کھو چکا ہے تو بھارت بھی اپنا اعتماد بحال نہیں رکھ سکےگا۔ پاکستان بہترین ڈپلومیسی اور بیانیہ کیساتھ آرام سے اور بہترین طریقے سےچل رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی توجہ اس وقت پاکستان کے تیسرے فریق سے انکوائری کروانے کے بیان پر ہے بھارت کا ابھی تک اس کوئی ردعمل نہ آنا اس کیلئے سوالیہ نشان ہے۔