اس میں اب دو رائے نہیں کہ ماہ رنگ لانگو اور اس کی جماعت بلوچ یکجہتی کمیٹی گزشتہ ڈیڑھ سال سے ریاست کیخلاف نام نہاد بلوچوں کے حقوق کی تحریک کے نام پر بیرونی آقاؤں کی ایماء پر بلوچستان میں امن و امان کے درپے ہے ماہرنگ لانگو کے پرتشدد رویے اور غیر قانونی بیانات اور ریاست مخالف نعرے بازی کے باوجود ریاست اور سکیورٹی اداروں نے اسے اظہار رائے کی آزادی دی اور اس کو پرامن احتجاج کی اجازت بھی دیے رکھی۔
مگر جعفر ایکسپریس واقعہ کے بعد ماہ رنگ لانگو نے تمام حدیں کراس کر دیں اور یہ اپنے شر پسندوں کے ہمراہ سول ہسپتال کوئٹہ سے دہشت گردوں کی ڈیڈ باڈیز چھین کر فرار ہو گئی- جہنم واصل دہشت گردوں کی ڈیڈ باڈیز کو ہسپتال میں ڈی این اے ٹیسٹ اور پوسٹ مارٹم کے اہم مراحل کے لئے رکھا گیا تھا- کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح دہشت گردوں کی سہولت کاری کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور کوئی قانوں اس غیر قانونی عمل کی اجازت نہیں دیتا ۔
ماہ رنگ لانگو جو ایک طویل عرصے سے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے اور ریاست کیخلاف بے بنیاد اور بغیر شواہد کے الزام تراشی بھی کرتی ہے کو آخر اب کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔۔۔؟ دراصل اب کی بار ماہ رنگ نے دہشت گردوں کی براہ راست سہولت کاری کر کے ریڈ لائن عبور کی ہے جس کے بعد اس کی گرفتاری قانون کے مطابق لازمی بنتی تھی۔
اس ملک دشمن خاتون ماہ رنگ لانگو نے کوئٹہ میں سول ہسپتال پر دھاوا بولا جہاں پر جہنم واصل کئے گئے دہشتگردوں کا پوسٹ مارٹم جاری تھا تاکہ کچھ مزید معلومات حاصل ہوں اور مزید دہشتگرد گرفتار کئے جاسکیں اور اس دوران ماہ رنگ لانگو نے کئی ڈیڈ باڈیز کو قبضے میں لینے کی کوشش کی جس کے بعد قانون حرکت میں آیا اور ماہ رنگ لانگو کو گرفتارکرکے کوئٹہ جیل منتقل کردیا گیا۔
اس سے قبل احتجاج کے دوران بی واے سی کے پرتشدد مظاہرین کی فائرنگ سے تین افراد بھی مارے گئے تھے جن کی ایف آئی آر بھی ماہ رنگ لانگو کیخلاف کاٹی جا چکی ہے۔
یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے چاہے پاکستان اور یا دوسرا کوئی ملک اگر کوئی ملک دشمن آزادی اظہار رائے کے چکر میں ریڈ لائن کراس کرتا ہے تو اس کیلئے کوئی معافی یا نرمی نہیں برتی جاتی ہے۔ یہ کیسی اظہار آزادی رائے ہے کہ یہ ملک دشمن عناصر ہسپتالوں پر حملے کرکے دہشتگردوں کی سہولت کاری شروع کردے اور خاص طور پر دہشتگردوں کی لاشوں کو قبضے میں لیا جائے یہی وہ ریڈ لائن تھی جس کے بعد ماہ رنگ لانگو کو گرفتار کرکے اس کیخلاف باقاعدہ کیس رجسٹرڈ کیا گیا ہے اور یہ کسی بھی مہذب ملک میں آئین و قانون کے مطابق کیا جاتا ہے اس پر کوئی قدغن نہیں ہے کیونکہ ملک کے تحفظ سے آگے کوئی شخصیت نہیں ہوتی۔
ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ممالک اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جو خود کو انسانی حقوق کا عالمی چیمپئن قراردیتی ہیں کو ماہ رنگ لانگو کے اس ملک دشمن سرگرمی کی مذمت کرنی چاہئے بالخصوص ملالہ یوسفزئی جیسے کرداروں کو بھی جو خواہ مخواہ حقیقت کو جانے بغیر انسانی حقوق کے علمدار بنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کوئی بھی ریاست کسی کو یہ اجازت نہیں دی سکتی کہ آزادی اظہار رائے کے چکر میں ماہ رنگ لانگو جیسے کرداروں کو ہسپتالوں پر حملے کرنے کی اجازت دیدی جائے اور جب یہ حملے کریں اور دہشتگردوں کی ڈیڈ باڈیز پر قبضہ کریں تو ان پر کوئی مقدمہ بھی نہ بنایا جائے۔