اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے اس کارروائی کا مقصد ہائی کورٹ کو مزید شرمندہ کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔ جج کا احتساب کوئی اور نہیں صرف عوام کرتے ہیں ۔ آرڈر جاری کروں گا کہ ایک سے دوسرے بینچ کو کیس اس طرح منتقل نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ معاملہ بھی دیکھیں گے لارجر بینچ کی تشکیل اور کارروائی قانونی ہے یا نہیں ؟ ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نےایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے کہا اس کارروائی کا مقصد لوگوں کو آگاہی دینا ہے ہائی کورٹ کو مزید شرمندہ کرنا نہیں۔ توہین عدالت وہی جج سنتا ہے جس کے آرڈر کی خلاف ورزی ہوئی ہو ۔ کیا آپ اس عدالت میں لگی توہین عدالت درخواست پر دلائل دیں گے ؟ یا وہ بینچ توہین عدالت کیس سنے گا جس کے آرڈر کی حکم عدولی ہی نہیں ہوئی؟۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا لارجر بینچ کی درخواست ہماری نہیں سپرنٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کی تھی ۔ ہمیں اس معاملے سے الگ رکھا جائے۔ نیاز اللہ نیازی نے خود کہا کہ مشال یوسفزئی ہماری وکیل نہیں۔ وہ عدالت میں موجود تھے انہیں خود بتانا چاہیےتھا ۔ عدالت نیازی صاحب کو بلا کر پوچھے ۔ اس معاملے پر 37 درخواستیں زیر التوا ہیں ۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے نشاندہی کی ایڈووکیٹ جنرل تو وفاق کا نمائندہ ہے ۔ ڈپٹی رجسٹرار کی نمائندگی پراسیکیوٹر جنرل آفس ہی کرسکتا ہے۔
جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا متعلقہ عدالت کو ہی کیس منتقلی یا لارجر بینچ کی استدعا کی جاتی ہے ۔ اس ایشو پر فائنل ججمنٹ لکھوں گا کہ اس طرح کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون میں گنجائش نہیں ۔ اگر یہ کام ہائیکورٹ جج نےنہ کیا ہوتا تو یہ کریمنل توہین عدالت ہوتی۔
سوال یہ بھی ہےکہ لارجربینچ کی تشکیل اور عدالتی کارروائی قانونی ہے یا نہیں؟ لارجر بینچ میں سماعت ہوگی تو یہ معاملہ بھی دیکھیں گے ۔ میرے لئے سب سے اہم عدالت کی توقیر ہے ۔ جج کا احتساب کوئی اور نہیں عوام کرتے ہیں ۔ اپنے یا اپنے ساتھیوں کے لیے کوئی ناخوشگوار بات نہیں چھوڑنا چاہتا ۔۔۔۔ عدالت نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی ۔