وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے بندوق اٹھائی ان سے مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔
سماء کے پروگرام ’ ریڈ لائن ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ آج قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا طویل اجلاس ہوا جس میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے شرکاء کو تفصیلی بریفنگ دی، بریفنگ قابل غور تھی جبکہ اجلاس میں سیاسی قائدین نے تقاریر کیں جن میں سوالات اٹھائے گئے اور ان کے جوابات بھی دیے گئے۔
رانا ثناء اللہ کے مطابق اجلاس میں عسکری اور سیاسی قیادت نے اس بات پر مکمل اتفاق کیا کہ دہشت گردی کو کسی بھی صورت جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ دہشت گردوں کے خلاف ریاست کی پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز پہلے سے جاری ہیں اور انہیں جاری رکھا جائے گا، جن لوگوں نے بندوق اٹھائی ان سے مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔
مشیر وزیراعظم نے زور دیا کہ آج کی میٹنگ کے بعد "اگر مگر" کی بحث ختم ہو جانی چاہیے کیونکہ قومی اتفاق رائے موجود ہے اور اسے مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، ایسی میٹنگز ہونی چاہئیں اور یہ سوال نہیں اٹھنا چاہیے کہ کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں دہشت گردوں کی افغانستان میں موجودگی کا ذکر بھی ہوا اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جن چیزوں میں بہتری کی ضرورت ہے، اس پر بھی بات چیت کی گئی جبکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے صوبے کے فنڈز سے متعلق اپنا موقف پیش کیا۔
رانا ثناء اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے کل اپنے نام دیے اور اسپیکر سے مزید تین نام شامل کرنے کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ اگر بانی تحریک انصاف سے ملاقات نہ بھی ہوئی تو وہ اجلاس میں شریک ہوں گے لیکن رات کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر انہوں نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ غیر سیاسی ہے اور انہوں نے ذاتی سیاسی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی۔
مشیر وزیراعظم نے اجلاس کو قومی سلامتی کے حوالے سے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف سیاسی اور عسکری قیادت کا مشترکہ موقف اس مسئلے سے نمٹنے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔