وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو ایسا کوئی کام نہیں کرنے دوں گا جو میرے صوبے اور روایات کے مطابق نہ ہو۔
اتوار کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے اضافی ٹیکس لگائے بغیر ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا، حکومت سنبھالی تو ہم پر 752 ارب روپے کا قرض تھا، ہم نے اضافی قرض بھی نہیں لیا اور قرضوں کی ادائیگی کو بھی ممکن بنایا، صوبے میں ان منصوبوں پر توجہ دی جن سے ریونیو حاصل ہوسکے گا، 2028 تک صوبہ 250 میگاواٹ بجلی پیدا کرنا شروع ہو جائے گا، انڈسٹری کو سستی بجلی ملنے سے صنعت کو بھی فروغ ملے گا اور ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ صوبے میں اسکالرشپس کے فنڈز میں اضافہ کیا، زکوٰۃ کی مد میں ملنے والی رقم میں اضافہ کیا، ہر سیکٹر میں انڈونمنٹ فنڈز کے تحت 2 سے 4 ارب روپے ڈالنے شروع کردیئے ہیں، صوبے میں معدنیات کے شعبے میں کام کررہے ہیں، 4 سائٹس پر شفاف طریقے سے نیلامی کرنے سے ساڑھے 5 ارب روپے حاصل ہوئے، صوبائی حکومت کی کارکردگی کے لحاظ سے کچھ اہم چیزیں بتائی ہیں، ہم نے چھوٹی چھوٹی اور بھی بہت ساری چیزیں کی ہیں۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ہمارے بہت سے منصوبے 2010 سے مختلف ادوار میں شروع ہوئے جو مکمل نہ ہوسکے، ایسے منصوبوں کی تکمیل کیلئے سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جو صوبے کو پاؤں پر کھڑا کریں گے، دہشت گردی ، امن اور امان کی صورت حال صوبے کا بڑا ایشو ہے، مجھے صوبے کے حالات کا بخوبی اندازہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت میں دہشت گردی ختم ہو چکی تھی، 2018 سے 2021 تک دیکھ لیں کہ کتنی دہشت گردی ہوئی، ان کے بعد تمام اداروں نے اپنی ساری قوت ایک جماعت کو ختم کرنے پر مرکوز کر دی، دہشت گردی سے توجہ ہٹنے کے باعث اس میں اضافہ ہوا، وفاقی حکومت، اداوں، ذمہ داروں کی نااہلی کی وجہ سے آج یہ حالات ہیں، میں نے انہیں کہا کہ افغانستان سے مذاکرات کرنے چاہئیں، کئی مہینے میں ان سے یہی بات کرتا رہا، بعد میں انہوں نے مجھے کہا بات کرکے دیکھ لیں، ہم نے مذاکرات کے معاملے پر تمام کام کر کے ٹی اوآرز بنا کر وفاق کو دیئے، 2 ماہ سے انہیں ٹی او آرز دیئے ہیں، آج تک جواب نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ کے پی پولیس دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، کے پی پولیس دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دے رہی ہے، پولیس پر صوبے کے باہر بیٹھے کسی بندے یا بندی کی تنقید برداشت نہیں کروں گا، بارڈر پر پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، اپریل کی ڈیڈ لائن دے چکا ہوں، صوبے کے پیسے لے کر کے پی پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کروں گا، صوبے کے بقایا جات پر بات چیت جاری ہے، 1680 ارب صوبے کے عوام کے ہیں، یہ رقم معاف نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت اور اداروں پر عوام کااعتماد نہیں، ہم نے آئی ایم ایف کے دیئے ٹارگٹ پورے کیے، جب سے ہم آئے ہیں، ہرماہ 10ارب روپے قرضے کی قسط ادا کررہے ہیں، اگر آپ کریڈیبل نہیں ہوں گے تو کوئی آپ پر اعتماد نہیں کرے گا، قرض نہیں دے گا، وفاق نے صوبے کو 700 ارب روپے دینے تھے، 7 سال میں 220ارب روپے جاری کیے، باقی پیسے نہیں دیئے، ہم نے اُن منصوبوں پر کام روکا نہیں، اپنے وسائل سے کام جاری رکھا۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ جب مجھے حکومت ملی تو پولیس کے پاس بندوقیں نہیں تھیں، بندوقوں کی خریداری کیلئے پیسے بھی دیئے جا چکے تھے ، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ دہشت گردی ختم کرنے کیلئے یہ لوگ کتنے سنجیدہ تھے، اب ہمیں 500 بندوقیں ملی ہیں جو پولیس کو دی جا چکی ہیں، مزید بندوقوں کی فراہمی کیلئے کہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حامد الحق واقعے کی انکوائری چل رہی ہے ابھی تک خاص شواہد نہیں ملے، انتشار پھیلانے کیلئے دہشت گرد مختلف کارروائیاں کرتے ہیں، دہشت گردوں نے پاکستان میں اپنی جڑیں دوبارہ بحال کر لی ہیں، آئی جی خیبرپختونخوا نئے آئے ہیں، کچھ سہولیات انہیں فراہم کردی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین ہمارے پڑوسی تھے اور ہیں، ہم ہمیشہ بطور پالیسی فیل ہوئے ہیں، ایک افغانی اگر پاکستان کی شہریت لینا چاہتا ہے تو ہمیں کیا مسئلہ ہے، اگر ایک شخص قواعد وضوابط پر پورا اترتا ہے تو ہمیں اسے شہریت دینی چاہیے، ابھی تک وفاق کی پالیسی ہے کہ افغان باشندوں کو واپس بھیجنا ہے، حکومت کو ایسا کوئی کام نہیں کرنے دوں گا جو میرے صوبے ، روایات کے مطابق نہ ہو، جب وفاق کے کسی اجلاس میں جاتا ہوں تو میں صوبے کی بات کرنے کیلئے تنہا ہوتا ہوں، جو 2 تین لوگ صوبے سے جاتے ہیں وہ بھی وفاق کے نیچے آتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ لوگ ابھی تک ایک جماعت کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، جس کی بات آپ کو پسند نہ ہو،اس پر ایف آئی آر دے دی جائے، کوئی اپنی رائے ، اپنی بات نہیں کر سکتا، ملک کس طرف جا رہا ہے؟ 1971 میں ٹھیک پالیسیاں نہیں بنائیں اور ملک ٹوٹ گیا، ہم نے سبق نہیں لیا، جو پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں، آج بھی ہم سبق نہیں لے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں باربار کہتا ہوں کہ بیٹھو اوربات چیت کرو، مذاکرات کرو، روز نئی نئی کہانیاں سنائی جاتی ہیں، قوم ان کہانیوں کو سمجھ چکی ہے، آج قوم ایک طرف جا رہی ہے، ریاست کسی اور طرف جا رہی ہے، ڈنڈوں کے زور پر سوچیں بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن و امان کی صورت حال سب کے سامنے ہے، آج ایک لاکھ 20ہزار لوگ ملک سے باہر جا چکے ہیں، ملک 7ہزار ارب سے زائد قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہوں، مجھے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرنے دی جاتی، کابینہ کی تبدیلی پر بانی پی ٹی آئی کا جو پیغام آیا تھا وہ سب کے سامنے ہے، پارٹی کی انٹرنل کمیٹی کارکردگی سمیت دیگر معاملات پر مشاورت کر رہی ہے، کمیٹی لوگوں کو بلا کر بات چیت کرر ہی ہے، کارکردگی چیک کر رہی ہے، صوبے کا وزیراعلیٰ ہوں، حکومت چلانے کیلئے بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کرنا پڑتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کا کوئی رکن پرویز خٹک سے ملتا ہے تو اسے لوٹا قرار دیں گے۔