سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس واقعے کے تمام دہشتگردوں کی ’نانی‘ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہے، جعفر ایکسپریس حملے کا بلوچ روایات سے کوئی تعلق نہیں، بے امنی پھیلانے والے صرف دہشتگرد ہیں، آہنی ہاتھوں سے نمٹے کا فیصلہ کرلیا، سابق حکومت کی پالیسی دہشتگردی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا اور اظہار یکجہتی پر عالمی برادری سے بھی اظہار تشکر کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ جعفر ایکسپریس حملے کی مذمت کرتا ہوں، جس طرح آپریشن کیا گیا قابل تعریف ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، انٹرنیشنل کمیونٹی کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے واقعے کی مذمت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ نہتے مسافروں پر حملہ کیا گیا، ایسے واقعات کا بلوچ روایات سے تعلق نہیں، دہشتگردوں نے تمام روایات کو پامال کیا، ان کو بلوچ نہ کہا جائے، بلوچیت کے نام پر جو دہشتگردی کرتے ہیں ان کا بلوچوں سے تعلق نہیں، یہ قوتیں پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتی ہیں، جس ٹرین پر حملہ ہوا اس کا ٹکٹ کاؤنٹ 425 تھا مختلف اسٹیشنز سے انہوں نے بیٹھنا تھا۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردوں نے دوحہ میں معاہدہ کیا تھا، دنیا کو بھی سوچنا پڑے گا یہ خطرہ پاکستان نہیں ان کیلئے بھی ہے، پچھلی حکومت میں ان کو بسایا جارہا تھا، جیلوں سے آزاد کئے جارہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کو میڈیا نے ناراض بلوچوں کا نام دیا، یہ ضروری نہیں بیروزگاری ہوگی تو میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا، رائٹ ٹو مونوپلی ریاست کے پاس ہے، ان سب دہشتگردوں کی نانی ایک ہے اور وہ ’’را‘‘ ہے، بلوچ گروپس کے آپس میں اختلافات رہے ہیں، ان کو متحد کرنے میں کون ملوث رہے ہیں؟، فورسز جلد ہی اس میس کو کور کرلیں گی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ 2018ء کا الیکشن بلوچستان کی تاریخ میں سب سے پُرسکون الیکشن تھا، اے اور بی ایریاز کی تقسیم ختم کرنے جارہے ہیں، بلوچستان میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ لڑائی فوج اور سو کالڈ ’’سرمچار‘‘ کی ہے، یہ لڑائی میڈیا، عوام اور ہم سب کی ہے، ان کا مقصد ہمیں توڑنا ہے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ میں کسی ایک شخص کے بھی لاپتہ ہونے کی وضاحت نہیں دینا چاہتا، مانا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے جو شخص لاپتہ ہے اس کو تلاش کرے لیکن اسے پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کرنا ناقابل قبول ہے، دیگر صوبوں میں بھی یہ معاملاہ ہے لیکن بلوچستان کو بار بار کیوں دہرایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا ہیومن رائٹس سے تعلق نہیں، دہشتگرد اس بنیاد پر نہیں لڑرہا، دہشتگردی کا انڈر ڈیولمپںٹ سے تعلق نہیں، ان کا ہدف تشدد سے ملک کو توڑنا ہے، ان کو ہمدرد بھی مل جاتے ہیں، کیا بشیر زیب پریس کلب کے سامنے تقریر کرسکتا ہے، مظلوم کی آواز اس ملک میں کیوں نہیں ہے، وکٹم کی وائس کم اور دہشت گردوں کو گلوری فائی کرنے کیلیے بہت قوتیں ہیں، یہ اسکول آف تھاٹ حیدرآباد سازش کے بعد آیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستان سے الحاق اپنی مرضی سے کیا ہے، پارلیمںٹ نے بلوچستان کو حقوق دیے ہیں، نیشنل ایکشن پلان بہت اہم ڈاکومیںٹ ہے، دوبارہ اس پر بیٹھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاست میں تو مذاکرات کا آپشن ہوتا ہے یہ سیاسی مسئلہ نہیں، ہمارا افغانستان کے ساتھ ہزاروں کلو میٹر کا بارڈر موجود ہے، بی ایل اے اور طالبان دونوں کو ٹرین کیا جارہا ہے اور دونوں کو ہینڈل کیا جارہا ہے، افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی تھی، ہم نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی، لاکھوں افغانوں کو جگہ دی، انہوں نے ہمارے ملک کو غیرمستحکم کرنا ہے، سیکیورٹی فورسز ہمارے کل کیلئے آج قربان کررہی ہیں۔