چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ آدھی مدت کے لیے وزیراعظم کے عہدے کا فارمولا ہمیشہ مسترد کیا۔ اگر حکومت کا من و عن ساتھ دیتے تو پھر وفاقی حکومت کا حصہ ہوتے مگر ابھی تک مکمل طور پر اعتماد سازی نہیں ہوئی کہ حکومت کا حصہ بنیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو نے کہا کہ عوامی مسائل اور معیشت میں بہتری ہوئی تو تعریف کرنا ہمارا فرض ہے، مگر جہاں عوامی مسائل ہوں گے تو اپنی رائے کا اظہار بھی کریں گے۔ حکومت کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات سب کے سامنے ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں تیسری بڑی قوت ہے، ایوان میں دوسری بڑی جماعت پی ٹی آئی ہے اور وہ کیا کررہی ہے؟ ہمارے ووٹرز کا بڑا مطالبہ مہنگائی میں کمی تھا جس میں بہرحال بہتری ہے، دوسری طرف تو صرف قیدی 420 رہا کرنے کا مطالبہ ہے، ہمارے ووٹرز کا کیا لینا دینا؟۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پانی کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی خاموشی کا بیانیہ سفید جھوٹ ہے، پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے پانی کے ایشو کو اٹھایا، 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں بھی یہ معاملے پر بات کی تھی، قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں پیپلز پارٹی کے ارکان نے بات کی، صوبائی حکومت، وزیراعلی سندھ سمیت دیگر وزراء نے بھی معاملہ اٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ نہروں کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل سے متعلقہ ہے، افسوس ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا ایک سال سے اجلاس نہیں ہوا، گرین پاکستان کا منصوبہ تو پیپلز پارٹی کی ہی تجویز ہے، ہم تو کسانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کے حامی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ غلط فہمی پیدا کرنے والے سیاستدان جان بوجھ کر اسے متنازعہ بنارہے ہیں، قومی ایشوز پر اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہمیں نشانہ بنارہے ہیں، ایسی بات کرکے آپ دھوکہ دہی کی سوا کچھ نہیں کررہے ہیں، یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، پیپلزپارٹی ہی اسے اجاگر کررہی ہے، جو واقعی پانی کو غیر متنازعہ رکھنا چاہتے ہیں وہ مناسب جگہ تنقید کریں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ وہ مسائل حل کریں گے، دوسرا بجٹ آنے والا ہے،اب تک شکایات حل ہوجانی چاہئیں تھیں، اگر صوبائی حکومت امن و امان پر کچھ نہیں کرتی تو وفاق کو کرنا ہوگا، وزیر اعظم سے ملاقات میں اہم ایشوز پر بات ہوئی۔ معاشی اشاریے بہتر ہورہے ہیں جس پر وزیراعظم کو مبارک باد پیش کی ہے۔