وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت نے اپنے اقتدار کا ایک سال مکمل کر لیا ہے اور حکومت نے اس عرصے میں مہنگائی میں نمایاں کمی، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے سمیت معاشی اشاریوں میں بہتری کا دعویٰ کیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے کم ہوکر ساڑھے نو سال کی کم ترین سطح 1.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ شرح سود 22 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد ہوگئی۔
اس کے علاوہ برآمدات، ترسیلات زر اور سرمایہ کاری میں اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ مالی خسارے میں کمی اور نان ٹیکس ریونیو میں بہتری سے میکرو اکنامک صورتحال مستحکم ہوئی جس کی وجہ سے عالمی ریٹنگ ایجنسیاں جلد پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری کا اعلان کر سکتی ہیں۔
تاہم، اقتصادی ماہرین نے حکومت کے ان دعوؤں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا ہے اور قرضوں پر سالانہ سود کا بوجھ تقریباً 10 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ ٹیکسز میں شارٹ فال کو پورا کرنے، انرجی سیکٹر میں اصلاحات، سرکاری اداروں کے نقصانات کم کرنے اور وفاقی حکومت کے سائز میں کمی کے وعدوں پر عملدرآمد میں تیزی لانا ہوگی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات اسی میں ہیں کہ پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے اور خودمختاری حاصل نہ کر سکے۔
انہوں نے قرض کو کامیابی کے طور پر منانے کے رویے کو ذہنی غلامی کی عکاسی قرار دیا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے مقامی قرضوں کے بوجھ کو معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ مالیاتی ڈھانچے میں 9 ہزار ارب روپے سے کم ریونیو بچتا ہے جبکہ صرف سود کی ادائیگی 9775 ارب روپے تک جا پہنچتی ہے۔
ان کے بقول پرائمری اور سیکنڈری خسارے کے باعث معیشت لوکل کرنسی ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے۔
دوسری جانب حکومت کے ناقدین نے یہ بھی تنقید کی کہ کابینہ کا سائز کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیا گیا جو معاشی اصلاحات کے دعوؤں سے متصادم ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار میں بہتری نظر آتی ہے لیکن ناقص پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں پھنستی جا رہی ہے، اس تناظر میں شہباز سرکار کی معاشی اڑان کے دعوے اور زمینی حقائق کے درمیان واضح تقسیم نظر آتی ہے۔