سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے چیئرمین سینیٹر فیصل واوڈا نے پورٹ قاسم کی 500 ایکڑ اراضی کی مبینہ غیرقانونی الاٹمنٹ اور فروخت کا معاملہ ایک بار پھر کمیٹی کے اجلاس میں اٹھا دیا۔
منگل کو ہونے والے اجلاس کے دوران فیصل واوڈا نے اس حوالے سے کاغذات پیش کیے اور بورڈ ممبران سے سخت سوالات کیے جبکہ انہوں نے کہا کہ اگر اراضی کی الاٹمنٹ درست تھی تو اس کی فروخت 72 گھنٹوں میں منسوخ کیوں کی گئی؟۔
کمیٹی نے پورٹس کی لیز پر دی گئی تمام اراضی کو فریز کرنے کی ہدایت جاری کردی۔
اجلاس میں فیصل واوڈا نے اخبارات کے تراشوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پورٹ قاسم کی 500 ایکڑ اراضی کی مارکیٹ ویلیو 60 ارب روپے سے زائد ہے لیکن اسے مبینہ طور پر کم قیمت پر الاٹ کیا گیا۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نوٹس لینے کے بعد 72 گھنٹوں میں الاٹمنٹ واپس لی گئی جس سے پاکستان کو 60 ارب روپے واپس ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ 365 ایکڑ کے پیسے لیے جا رہے تھے اور 500 ایکڑ دیے جا رہے تھے یہ سراسر بدعنوانی ہے۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ 2018 سے 2025 تک پورٹ قاسم کے پاس 14 ہزار ایکڑ زمین تھی جو اب صرف 35 ایکڑ رہ گئی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ باقی زمین باپ کا مال سمجھ کر اونے پونے بیچ دی گئی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور میں سابق وفاقی وزیر علی زیدی نے کابینہ سے "وزیر کے اختیارات کا ایکٹ" منظور کروایا تھا، جس کے تحت انہیں اضافی اختیارات حاصل ہوئے۔
فیصل واوڈا نے اس ایکٹ کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا اور کہا کہ اس معاملے کی گہرائی سے تحقیقات کی جائیں گی۔
انہوں نے غیرقانونی الاٹمنٹ اور زمینوں کی فروخت کے کاغذات میڈیا کے سامنے بھی پیش کیے اور کہا کہ یہ ایک میگا اسکینڈل ہے جس کی تہہ تک جانا ضروری ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس معاملے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے پورٹس کی لیز پر دی گئی تمام اراضی کو فریز کرنے کا فیصلہ کیا اور متعلقہ حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کی۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ کمیٹی اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے گی تاکہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب ہو سکے۔