اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔
عدالت عالیہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد 16 اکتوبر کو فیصلہ کیا تھا۔
جمعہ کو، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنایا جس کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
علاہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس کے اخراج کی درخواست بھی مسترد کر دی ہے۔
بعدازاں، اسلام آباد ہائی کورٹ کےچیف جسٹس عامر فاروق کی جانب سے ضمانت اور اخراج مقدمہ کی درخواستیں مسترد کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ بادی النظر میں پٹیشنر پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کا اطلاق ہوتا ہے۔
20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا کیس ہے وزارت خارجہ نے سائفر ڈی کوڈ کر کے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ بھجوایا اور چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم سائفر کو وصول کیا اور بظاہر گم کر دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر مندرجات توڑ مروڑ کر سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیے۔
فیصلے کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کیس میں ایک شریک ملزم ہیں، صرف ایک شریک ملزم کی حد تک ایف آئی آر کالعدم نہیں ہو سکتی اور شریک ملزم کی وجہ سے اخراج مقدمہ کا حکم بھی نہیں دیا جاسکتا۔
دفترخارجہ کے سابقہ اور موجودہ افسران بالخصوص سائفر بھیجنے والے اسد مجید کے بیانات ریکارڈ پر ہیں، دفترخارجہ کے افسران کے بیانات سے واضح ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی سازش شامل نہیں لہٰذا، چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری اور اخراج مقدمہ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پراسیکیوشن کے مطابق سائفر چیئرمین پی ٹی آئی کے قبضے میں ہے، بلا شک و شبہ انکے خلاف تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں، سنگین نوعیت کے الزامات پر ضمانت نہیں بنتی اور بادی النظر میں ملزم کا کیس سے تعلق بنتا ہے۔