مقبوضہ کشمیر میں دکانوں سے سینکڑوں اسلامی کتب ضبط کر لی گئیں۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کےبعد،اب مودی حکومت نے علمی و فکری کتابوں کوبھی نشانہ بنانا شروع کر دیا،مودی حکومت نے ایک اور متنازعہ قدم اٹھاتے ہوئےمقبوضہ کشمیر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مار کر 668 اسلامی کتابیں ضبط کر لیں،ضبطی کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ کتابیں نئی دہلی کے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز کی شائع کردہ تھیں، جو جماعت اسلامی ہند سے منسلک ہے۔
2019 میں جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کےبعد،اب اس کے علمی ورثے کو بھی ختم کرنےکی کوشش کی جا رہی ہے،جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ضبط کی گئی کتابیں نئی دہلی سے قانونی طور پر شائع ہو کر کشمیر میں فروخت کے لیے آئی تھیں۔
جماعت اسلامی کےرہنماوں نےضبطی کی شدیدمذمت کرتےہوئےکہاکہ یہ اقدام نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ غیرآئینی اوربنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے،علم اورمطالعے پرقدغن لگانا کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔
میرواض عمر فاروق،کشمیریوں کی آزادی کے اہم رہنما کاکہنا تھاکہ کتابوں کےخلاف پولیس کی کارروائی انتہائی قابل مذمت اور مضحکہ خیز ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہےجو جمہوری اور انسانی اقدار کےمنافی ہے،اگرچہ کتابوں کی اشاعت اور تقسیم قانونی تھی، پھر بھی مودی نے اسے غیرقانونی قراردےکر اپنی مسلم دشمنی ثابت کردی،مودی حکومت کی جانب سےاسلامی کتابوں کی ضبطی اس کےمسلم مخالف نظریےکی ایک اور واضح مثال ہے۔
مودی حکومت کا یہ اقدام کشمیر میں رہنے والےمسلمانوں کی فکری آزادی پر ایک اورحملہ ہے،جس کا مقصد ان کی آواز دبانا ہے،مودی حکومت نہ صرف کشمیریوں کےجینے کےحقوق چھین رہی ہے بلکہ اب ان کے سوچنے اور پڑھنے کے حق پر بھی حملہ آور ہے۔