وزیر اعظم کے مشیر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف ( سی او اے ایس ) جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے خط کا’ آرمی چیف طرف سے صاف جواب ہی سمجھا جائے ‘۔
سماء کے پروگرام ’ ندیم ملک لائیو ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے خط کے معاملے پر مختصر اور جامع جواب دیا ہے اور صحافیوں نے سوال کیے تھے انہوں نے خود جواب نہیں دیا جبکہ آرمی چیف کی طرف سے خط کا صاف جواب ہی سمجھا جائے۔
وزیر اعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کا خط فوج کے خلاف بیانیہ ہے اور انکی چالوں کو سب سمجھتے ہیں، آرمی چیف کو خط بھیجتے اور میڈیا کو جاری نہ کرتے تو شاید جواب مل جاتا لیکن خط پہلے ہی میڈیا کو جاری کیا گیا جس کا مطلب پروپیگنڈا کرنا تھا ، جو خط چیف جسٹس کو لکھا گیا شاید وہ میڈیا کو جاری نہیں کیا گیا، کسی نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے تو اس کو ٹریٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی 9 مئی کے بیانیے سے پیچھے ہٹنے اور معافی مانگنے کیلئے تیار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی کسی دور کے صابر مٹھو سے ملاقات نہیں کی، 2016 میں صابر مٹھو ہمارے جونیئر تھے اور لوگ ان کے در پر جاتے تھے، لوگ صابر مٹھوں کو ملتے تھے تو اُلٹے پاؤں واپس آتے تھے، مجھے کہا گیا تھا صابر مٹھو کے پاس جائیں تو آپ کو ریلیف مل سکتا ہے لیکن میں نہیں گیا، کسی کے پاس گاڑی میں لیٹ کر جانے والی بات درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے نہیں کہا کہ ججز کے خلاف ریفرنس دائر کر رہے ہیں ، کہا تھا ریفرنس دائر ہوسکتا ہے، میں نے ججز کو ڈرانے کی کوشش نہیں کی ، میری رائے میں یہ مِس کنڈکٹ ہے، بینچ بنانے کا اختیارہم نے اپنے پاس نہیں رکھا ، حکومت اور ججز کے 5،5 ووٹ ہیں، میرا نہیں خیال کہ ججز کے خلاف ریفرنس فائل ہونا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کبھی کسی کے دھڑا نہیں بنے ، ہمارا کیسے بنیں گے؟ ، ان کے ساتھ جو 2 سینئر ترین ججز تھے وہ گروپنگ میں ملوث تھے، ان دونوں میں سے کسی کا چیف جسٹس بننا گروپنگ کو تقویت دیتا، جو گروپنگ کاحصہ نہیں تھے انہیں ہی چیف جسٹس بنایا جانا مناسب تھا۔






















