پاکستان میں رواں سال گندم کی فی من قیمت 3 ہزار 900 روپے سے 2 ہزار 800 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے گندم کی قیمتوں میں کمی کسانوں کے لیے بے حد پریشانی کا باعث ہے۔ جس کے بعد کسانوں کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ گندم کاشت نہیں کریں گے، جس سے مستقبل میں گندم کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق قیمتوں میں کمی گندم کی پیداوار میں خاصی کمی کا باعث بن سکتا ہے، جس سے ملک میں پہلے سے موجود غذائی سلامتی کا معاملہ زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق متعدد کاشتکاروں نے اس مرتبہ گندم کاشت نہیں کی، اور اسکی وجہ گندم کی قیمت میں کمی کی وجہ سے کسانوں کو گزشتہ ایک برس میں شدید مالی نقصان ہوا ہے کیونکہ گندم کی کاشت کے لیے درکار تمام لوازمات انتہائی مہنگے ہو چکے ہیں، جس میں کھاد، بیج، اسپرے، ڈیزل، ٹریکٹر وغیرہ شامل ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ جو اسپرے کی بوتل 300 روپے میں مل جاتی تھی، اب وہی اسپرے کی بوتل 1700 روپے تک پہنچ چکی ہے، جو 2 سال قبل یوریا کھاد 2000 روپے کی بوری تھی، جس کی آج قیمت 5500 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
اسی طرح ڈیزل 300 روپے پر جا چکا ہے اور جو گندم کی کاشت کے لیے درکار دیگر لوازمات کی قیمتیں 600 فیصد تک بڑھ گئی ہیں، کسان اپنی فصل پر جو پیسہ خرچ کرتا ہے، حکومت نے کسان کو اس کا پورا معاوضہ نہیں دیا، اور اب کی بار گندم کی قیمت میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے معاشی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔
سابق صدر کسان بورڈ پنجاب کے مطابق رواں برس کسانوں نے بہت کم گندم کاشت کی ہے یہی وجہ ہے کہ اس بار گندم کی پیداوار کا ہدف 65 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔
کسان کاشتکاری کے بجائے اب جانوروں کی پرورش یا پھر سبزیوں کی کاشت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، کیونکہ چاول، گنا، چنا کاشت کر نے کا ان کو فائدہ نہیں ہے، ان کو مناسب قیمت ہی نہیں ملتی۔
کسانوں کے مطابق ان کی فی من گندم کی قیمت 3 ہزار 900 روپے سے کم نہیں ہونی چاہیے لیکن حکومت نے 2 ہزار 800 روپے قیمت لگائی ہے، جس پر کسان بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت نے پالیسی تبدیل نہ کی تو وہ گندم کاشت نہیں کریں گے۔
گندم کی قیمت میں کمی کے اثرات آٹے کی قیمت پر مرتب ہو چکے ہیں، 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 3200 روپے سے اب 1700 روپے تک ہوچکی ہے۔
اگر گندم کی فی من قیمت میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے، تو آٹے کی قیمت میں تقریبا 45 فیصد تک کمی آ چکی ہے، آٹے کی قیمت میں مزید کمی تو فی الحال ممکن نہیں ہے یا شاید تھوڑی بہت ہو بھی جائے لیکن اس صورتحال میں حکومت کو ایگرو اکانومی کو بھی دیکھنا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق کے مطابق حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ کسان کی گندم کی پیداواری قیمت پوری ہو بھی رہی ہے یا نہیں، اسے مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ گندم کا بحران پیدا ہوگا اور پھر گندم درآمد کرنا پڑے گی۔