وفاقی جج نے ایلون مسک کی حکومتی اخراجات میں کٹوتی کرنے والی ایجنسی کو امریکی محکمہ لیبر کے نظاموں تک رسائی حاصل کرنے سے روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔
واشنگٹن ڈی سی میں امریکی ڈسٹرکٹ جج جان بیٹس کے اس عارضی فیصلے میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت کو مدعا علیہ (محکمہ لیبر) کے رویے پر تشویش ہے لیکن امریکی فیڈریشن آف لیبر اینڈ کانگریس آف انڈسٹریل آرگنائزیشنز (اے ایف ایل-سی آئی او) یہ ثابت نہیں کر سکی کہ محکمہ لیبر کے اقدامات سے اسے کوئی نقصان پہنچا ہے۔
اے ایف ایل-سی آئی او کی صدر لِز شولر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ ایک دھچکا ہے شکست نہیں اور یونین اپنے دعووں کو ثابت کرنے کے لیے مزید شواہد پیش کرے گی۔
واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے امیرترین شخص ٹیسلا ،سپیس ایکس اور دیگر کمپنیوں کے مالک ایلون مسک کو حکومتی دھوکہ دہی اور فضول خرابی کی نشاندہی کرنے کے لیے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کی قیادت سونپی تھی۔
ایلون مسک کی کوششوں نے قانون سازوں اور حقوق کی تنظیموں کو پریشان کر دیا ہے جو کہتے ہیں کہ وہ اہم سرکاری پروگراموں کے ذمہ دار اداروں کو ختم کرنے اور بڑی تعداد میں وفاقی ملازمین کو برطرف کرنے کے ذریعے اپنی اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔
وفاقی ملازمین کی ایک اور یونین اور ریٹائرز نے ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ڈاج کو حساس ادائیگیوں کے ریکارڈز غیرقانونی طور پر منتقل کیے جا رہے ہیں۔ ٹریژری نے بدھ کو عارضی طور پر مزید رسائی دینے سے انکار کر دیا جب تک کہ مقدمہ حل نہیں ہو جاتا۔
محکمہ لیبر کے مقدمے میں اے ایف ایل-سی آئی او نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ مسک کے محکمہ کے نظاموں تک فوری رسائی کے منصوبے کو روکا جائے۔ یونین کا کہنا تھا کہ اس سے مسک کو سپیس ایکس ، ٹیسلا اور بورنگ کمپنی سمیت اپنی کمپنیوں کے خلاف محکمہ لیبر کے تحت چلنے والے تحقیقاتی معاملات تک غیر عوامی معلومات تک رسائی مل سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ مسک ان معاملات سے خود کو الگ رکھیں گے جن میں ان کا مفاد کا تضاد ہو۔ بطورخصوصی سرکاری ملازم وہ وفاقی ملازمین کے لیے بنائے گئے اخلاقی اصولوں کے کچھ حصوں کے پابند ہیں۔
مسک نے امریکی حکومتی ایجنسیوں پر تیزی سے کنٹرول حاصل کر لیا ہےجس کے ذریعے جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے اس تاجر نے امریکہ کی 2.2 ملین اراکین پر مشتمل وفاقی ورک فورس پر غیر معمولی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے پہلے ہی یو ایس ایڈ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ادارہ درجناں سرکاری مشاورتی معاہدے اور غیر استعمال شدہ لیز منسوخ کر رہا ہے۔