پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تاجر برادری کے ساتھ مل کر مسائل کا حل نکالیں گے، سندھ میں ایسا کوئی شعبہ نہیں جس سے میرا روز واسطہ نہ ہو، رابطوں کو مزید بڑھائیں گے، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے کوئی شکایت ہے تو ہمارے سامنے آجائیں، کسی وزیر اور بیورو کریسی سے شکایت ہے تو مجھ سے کریں، سندھ میں پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے، کہیں اور جاکر چغلی کرنے کی ضرورت نہیں۔
منگل کے روز کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے تاجروں کے اعزاز میں ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، ان کا کردار تاریخ کا حصہ ہے، جن مسائل کا آپ سامنا کر رہے ہیں وہ سب جانتے ہیں، 2008 سے پہلے جس طرح کراچی چلتا تھا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، آج بھتہ نہیں مانگا جارہا ، زندگی کی دھمکیاں نہیں جارہیں۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ انڈسٹریز کو زبردستی بند کر کے مزدوروں کو ہڑتالوں اور جلسوں میں شریک کرنا بند ہو چکا ہے، اس میں تھوڑا سا کردار پیپلزپارٹی اور وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ کا ہے، مسائل کے حل کی ذمہ داری بھی ہماری ہے، یہ ذمہ داری قبول کرتے ہیں، آپ کے پیچھےآئی جی ہیں ، سندھ کا اپنا محکمہ اینٹی کرپشن ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ ان دونوں اداروں کا مخصوص کمپلین سیل شروع کریں، کراچی کی بزنس کمیونٹی کی کوئی شکایت ہے تو اس فورم کے سامنے آئے، اگر ظلم ہوگا تو ظلم کو روکنا چاہیں گے، ڈیجیٹائزیشن کا سلسلہ جاری ہے، جب کوئی شکایت ملتی ہے تو اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، مخصوص مسائل پر ہوائی باتیں بند ہونی چاہئیں، چاہتے ہیں کراچی اور بزنس کمیونٹی ترقی کرے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ
ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی چندا مانگا ہے، نہ بھتہ مانگا ہے، بزنس کمیونٹی کو مجھ سے کوئی شکایت ہے تو بتا دے، میں کیوں چاہوں گا کہ میری حکومت کے نام پر کوئی آپ کو تنگ کرے؟ ،ملک بھرسے میرے نمائندے الیکشن لڑتے ہیں اور منشور پر جیتتے ہیں، عوام کی ضروریات ہم پوری نہیں کرسکتے، حکومت کے ذریعے تو عوام کی ضروریات پوری کر ہی نہیں سکتے، یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ ملک کی معیشت چلے اور آپ کا کاروبار چلے، یہ تب ممکن ہوگا جب کراچی اور سندھ کے ہر شہر کا کاروبار کرے۔
انہوں نے کہا کہ فخر ہے سندھ واحد صوبہ ہے جہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا کامیاب منصوبہ ہے، چاہتا ہوں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو تیزی سے آگے لے کر جائیں، سندھ میں شروع کیے گئے انفرا اسٹرکچر منصوبے گڈگورننس کی مثال ہیں، ایسے مواقع تلاش کرنا چاہتا ہوں کہ بزنس کمیونٹی اور حکومت سندھ مل کر عوام کی خدمت کریں، شہر کے انفرااسٹرکچر ، یوٹیلٹی کے مسائل کا حل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے نکال سکتے ہیں، بزنس کمیونٹی انکم بڑھائے ، حکومت اسٹیک ہولڈر اور شیئر ہولڈرہوگی اور سہولت دے گی۔
اسلام آباد میں فیصلے لیے جاتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں فیصلے لیے جاتے ہیں،ٹیرف سیٹ کیے جاتے ہیں ، پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، بزنس کمیونٹی سے مشورے کیے بغیر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، مشورے کے بغیر پالیسیوں کا نقصان میں اور آپ اٹھاتے ہیں، 90 کی دہائی میں کوشش کی گئی کہ تھرکول منصوبہ شروع کیا جائے، تھرکول منصوبہ صوبے اور ملک کیلئے فائدہ مند ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ شہید بینظیرکی حکومت ختم ہونے کے بعد احتساب بیورو نے انتقامی کارروائیاں کیں، عالمی سرمایہ کاروں اور پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کیخلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں، ہمیں اعتماد بحال کرنے میں 20 سال لگ گئے،، تھرکول بہت کامیاب منصوبہ ہے، سب سے پہلے میگاواٹ ہم نے کراچی کو نہیں فیصل آباد کو دلوایا، یہ منصوبے پاکستان کیلئے ہی ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف تھرکول کی بات نہیں کریں گے، سندھ میں ونڈ انرجی کی بھی صلاحیت موجود ہے ، اس میں بھی مزید پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہونی چاہیے، اسلام آباد کے بیورو کریٹس، وزرا اور وزیراعظم ڈھٹائی سے کہتے ہیں ہم نے پاکستان سے لوڈشیڈنگ ختم کی، بتائیں سندھ میں کون سا شہر اور علاقہ ہے جہاں لوڈشیڈنگ نہیں؟، سندھ کے دیگر اضلاع میں 18 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہے، ہرڈویژن میں گرین انرجی پارکس بنا سکتے ہیں، سندھ حکومت کی زمین پر آپ منصوبے لگائیں ، کم قیمت پر عوام کو توانائی دلوانا چاہیں گے، وفاقی حکومت سے بات کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے ڈسکوز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں ٹیک اوور کرنا چاہیں گے، ہم خود مل کر توانائی کی پیداوار ، تقسیم اور پھر وصولی کریں گے، مل کر لوڈشیڈنگ اور ایوریج بل کے مسائل کا حل نکال سکیں گے، گرین انرجی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر 3 پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت گرین انرجی کے منصوبے شروع ہوچکے ہیں، یہ منصوبے ناکافی ہیں ، چاہتا ہوں اگلے بجٹ میں سندھ بھر میں اسے لے کر جائیں، آپ کے اکنامک زونز کیلئے مخصوص پبلک پارٹنرشپ میں انرجی پارکس مل کر بناسکتے ہیں۔
کس قسم کی حکومت ہے جو آئین کو نہیں مانتی؟
ان کا کہنا تھا کہ جو وفاقی حکومت سے شکایتیں ہیں اس طرح سے دور کرنے کی کوشش کریں گے، میرے ساتھ آئیں وفاق سے مل کر بات کرتے ہیں ، گیس ہمارا حق ہے ہمیں دو، گیس کی فراہمی ہمارا آئینی حق ہے ، یہ کس قسم کی حکومت ہے جو آئین کو نہیں مانتی؟، یہی شکایت تو بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کرتے تھے، سندھ پورے پاکستان کو سب سے زیادہ گیس فراہم کرتا ہے، بزنس کمیونٹی اور گھوٹکی کے عوام کو شکایت ہے تو اس کیلئے مل کر آواز اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس قانونی اور آئینی آپشن موجود ہے، وفاقی حکومت آپ کی بات نہیں مانتی تو ہمارے ساتھ مل کر عدالتوں میں آئیں اور مل کر ان سے اپنا حق لیں گے۔
کراچی کی پانی کی ضروریات پوری نہیں کی گئیں
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے، کراچی کی آبادی کو پانی اور دیگر یوٹیلٹیز کی فراہمی امتحان ہے، جیسے گیس کا حق نہیں دیا جارہا ویسے ہی پانی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، 1991 میں دستخط کردہ معاہدے میں سندھ کیلئے پانی طے کیا گیا، سیلاب کے علاوہ سندھ کو اس کے پانی کا شیئر نہیں دیا گیا، خیبرپختونخوا کو بھی شکایت ہے کہ اس کو پانی نہیں دیا جاتا، اس وقت بھی کراچی کیلئے سندھ کو اضافی پانی کا ایوارڈ دیا گیا ،آج تک کراچی کی پانی کی ضروریات پوری نہیں کی گئیں، وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے مزید 6 کینال نکالنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم تو وفاقی حکومت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں، کراچی کو سب سے آخر میں پانی ملتا ہے، کراچی کیلئے پانی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر میں پانی فراہم نہیں کرسکتے، بزنس کمیونٹی اور سندھ کا بڑا مطالبہ ہے کہ 1991کے معاہدے پر عملدرآمد کرو، ہمیں اسمارٹ ایری گیشن اور ایگری کلچر کی طرف جانا پڑے گا۔
ٹیکس کو بھتا بنا دیا جاتا ہے
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی میں اغوا برائے تاوان سے دہشتگردی تک مل کر مقابلہ کیا، اس سے پورے ملک کا فائدہ ہوا، حال ہی میں معاشی مسائل سامنے آئے، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا تاریخی اضافہ ہوا، بڑے شہروں میں بھی اس کا اثر ہوا، جیوپولیٹیکل انوائرمنٹ تبدیل ہوتا جا رہا ہے، افغانستان میں تبدیلیاں ، پاکستان میں دہشتگردی سے متعلق پالیسیاں بلوچستان ، کے پی میں امن کی صورتحال پر بڑا اثر پڑا، وہاں اضافہ ہو تو دوسرے صوبے پر بھی اثر پڑتا ہے، کوشش ہوگی ماڈرن ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے چین اور دیگر ممالک سے سیکھیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی بطور ایک سوشلسٹ تنظیم شروع ہوئی، بزنس کمیونٹی کی ترقی میں ہی پورے ملک کی ترقی ہے، چاہتا ہوں فلاحی ریاست قائم کروں، سندھ میں مفت علاج کے اسپتال کھڑے کیے ہیں، امن وامان ، انفرااسٹرکچر ، پنشن ، اولڈ ایج ، کم عمری تک عوام کا خیال رکھوں ، اس کیلئے مجھے ٹیکس بڑھانا پڑے گا،ریونیو میں اضافہ کرنا پڑے گا، جس طرح پاکستان کا ٹیکس نظام چل رہا ہے اس میں منزل پر پہنچنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گا، ٹیکس کو بھتا بنا دیا جاتا ہے، اسلام آباد میں کیے جانے والے فیصلے پتھر سے خون چوسنے والی بات ہے، ملک میں انکم ٹیکس 35 سے 45 فیصد تک ہے، سیلری کلاس سے پوچھیں کیا تعلیم اور صحت کی سہولتیں دلواتے ہیں؟، کیا امن وامان کا تحفظ ، انفرااسٹرکچر ، سہولتیں فراہم کرتے ہیں؟۔
ٹیکس کلیکشن
انہوں نے کہا کہ فیصلہ ہوگیا، پھر آئی ایم ایف پر الزام لگا دیتے ہیں، ہمارا ٹیکس کلیکشن نہ ہونے کے برابر ہے، صدر زرداری سندھ میں سب سے زیادہ زرعی ٹیکس ادا کرتے ہیں، اپنا ریونیو اور کلیکشن بڑھائیں ، انتقامی طریقوں سے نہیں، بانی پی ٹی آئی نے نیب ، ایف بی آر ، ایف آئی اے کو ہتھیاروں سے لیس کیا، اس طرح سے نہیں، اس طرح سے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لاسکتے، جب سروسز سندھ حکومت کی ذمہ داری بنی تو ٹیکس ریٹ باقی صوبوں سے کم رکھا تھا، ہم نے اپنے کلیکشن پر فوکس کیا ، کوئی دھمکی ، گرفتاریاں نہیں کی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت بننے کے بعد وزیراعلیٰ سے میٹنگ میں طے کیا زرعی ٹیکس سندھ ریونیوبورڈ کو دینا چاہیں گے، آئین کے مطابق زراعت صوبائی معاملہ ہے، شفاف طریقے سے ریونیو بڑھائیں لیکن ترقی نہ روکیں، ہم جیسی سیاسی جماعتیں ٹیکس ،ریونیو جنریشن،ویلفیئر اسٹیٹ بنانے پر یقین رکھتی ہیں، ہمارے لیے بھی یہ خواب حقیقت میں تبدیل کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
بجٹ
ان کا مزید کہنا تھا کہ نوید قمر فنانس کمیٹی کے سربراہ ہیں، اگلا بجٹ جون میں آنا ہے، ایسا نہ ہو عین وقت میں رات کے اندھیروں میں اعلانات کیے جائیں، ممبران اسمبلی کے سر پر بندوق رکھ کر کہیں پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا، آپ آج سے ہم سے بات کریں، ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کامیاب ہوں ، ریونیو میں اضافہ کریں، جس طرح یہ فیصلے لیتے ہیں نظرنہیں آتا یہ کوئی فائدہ مند طریقہ کار موجود ہے، ہمارا فوکس ہونا چاہیے کہ ہم مل کر کیا کر سکتے ہیں، وفاقی حکومت کی سطح پر ایگزیکٹو اور گورننس میں ہماری اتھارٹی نہیں لیکن آواز ہے، آپ کے ساتھ آواز ملاکر ایشوز کی نشاندہی کریں گے۔