رواں مالی سال نجی شعبے کو دیئے جانیوالے قرضے نمایاں اضافے سے 1.4 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعدادوشمار کے مطابق یکم جولائی 2024ء سے 17 جنوری 2025ء تک کے دوران نجی شعبے کے قرض میں 815 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 153 ارب روپے سے بڑھ کر 1.398 ٹریلین روپے تک جاپہنچے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ نجی شعبے کے قرض میں اس نمایاں اضافے کے پیچھے کئی عوامل ہیں، جن میں جاری مالیاتی نرمی کی پالیسیاں اور کاروبار کو وسعت دینے یا بڑھانے کے خواہاں کاروباری اداروں کی جانب سے قرضوں کی زیادہ مانگ شامل ہیں۔
مزید برآں، اس اضافے کے پیچھے ایک اہم عامل حکومت کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ 31 دسمبر 2024 تک 50 فیصد اے ڈی آر برقرار نہ رکھنے والے بینکوں پر 15 فیصد تک کا اضافی ٹیکس عائد کرے گی، اس اضافی ٹیکس سے بچنے کیلئے بینکوں نے مطلوبہ تناسب کو پورا کرنے کیلئے قرضوں کی تقسیم میں جارحانہ انداز میں اضافہ کیا۔
تاہم 28 دسمبر 2024ء کو وفاقی حکومت نے آخری لمحے میں ٹیکس قوانین میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے تحت انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2024ء کے تحت بینکوں کے منافع پر عائد 15 فیصد اضافی ٹیکس کو ختم کردیا گیا۔ اس کے بجائے حکومت نے بینکوں کیلئے معیاری انکم ٹیکس کی شرح کو 39 فیصد سے بڑھا کر 44 فیصد کردیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق روایتی بینکوں نے قرض میں اضافے میں سب سے بڑا حصہ ڈالا، جنہوں نے مالی سال 25ء کے پہلے 7 مہینوں کے دوران 722.642 ارب روپے کا قرض دیا جبکہ مالی سال 24ء کے اسی عرصے میں یہ رقم 3.34 ارب روپے تھی۔
دوسری جانب اسلامی بینکوں نے بھی نجی شعبے کو قرض دینے میں نمایاں اضافہ کیا، اسلامی بینکوں کی قرض دینے کی مقدار 403 فیصد یا 501 ارب روپے بڑھ کر مالی سال 25ء میں 625.55 ارب روپے تک پہنچ گئی جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں یہ 124.255 ارب روپے تھی۔
رپورٹ کےمطابق روایتی بینکوں کی اسلامی بینکنگ شاخوں نے یکم جولائی 2024 سے 17 جنوری 2025ء کے دوران نجی شعبے کو 50.213 ارب روپے کا قرض فراہم کیا، جو مالی سال 24 کے دوران 31.886 ارب روپے تھا۔