سپریم کورٹ میں بینچ اختیارات سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، معاملہ فل کورٹ جائے گا یا نہیں، عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلا۔ اس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، پوچھا کیا کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟۔ حامد خان نے جواب دیا کہ دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا، جوڈیشل پاور پوری سپریم کورٹ کو تفویض کی گئی ہے، انتظامی آرڈر سے عدالتی حکمنامہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا، کچھ ججز کے اختیارات کم اور کچھ کے زیادہ ہوں ایسا نہیں ہوسکتا۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن ہے، ماضی میں بینچز تشکیل جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا، کہا کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔
سپریم کورٹ میں بینچ اختیارات کیس مقرر نہ ہونے پر توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کررہا ہے، حامد خان کے بعد عدالتی معاون احسن بھون کے دلائل جاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں عدالتی فیصلوں سے آئینی دفعات کو غیرفعال کیا جاتا رہا، استدعا ہے اب عدالت ایسا کوئی کام نہ کرے۔
احسن بھون نے مزید کہا کہ توہین کا کیس عدالت اور توہین کرنے والے ملزم کے درمیان ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں غلط ہوا اب سب ٹھیک ہے؟، ماضی میں اتنا نہ جائیں، آپ تو ہمارے یونیورسٹی دوست بھی ہیں،ہم تو آئینی بینچ نہیں ہیں، ایسا آرڈر کر ہی نہیں سکتے، ہم تو یہاں صرف گپ شپ کر رہے ہیں۔
احسن بھون نے مزید کہا کہ اسی لئے ہم چاہتے تھے کہ آئینی عدالت الگ ہی بن جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ تھوڑا سا دھکا اور لگاتے تو آئینی عدالت بن جاتی۔ عدالتی معاون نے کہا کہ ہمارا دھکا لگ رہا ہوتا تو بن ہی جاتی، جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ دھکا تو آپ کا لگا ہی ہے۔
عدالتی معاون احسن بھون کا کہنا تھا کہ بینچ پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے بنایا تھا۔ جسٹس عقیل نے کہا کہ اصل میں ساری شرارت ہمارے آرڈر کی ہے، ویسے تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ کیا دنیا میں ایسا ہوتا کہ ایگزیکٹو بینچ بنائے؟، احسن بھون نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے، جب تک آئین میں شامل ہے تو وہ دستور کا حصہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم آرٹیکل 191 اے کا جائزہ بھی نہیں لے سکتے؟، احسن بھون نے جواب دیا کہ آپ جائزہ نہیں کیس آئینی بینچ کو ریفر کریں گے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ آئینی بینچ تو 26 آئینی ترمیم کی پیداوار ہے، کیا چلتا ہوا کیس کمیٹی واپس لے سکتی ہے؟، احسن بھول نے دلائل دیئے کہ یہ آئین کی منشا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے پوچھا کہ اگر ہم آرڈر کرتے تو کیا غیر آئینی ہوتا؟، جوڈیشل آرڈر عدالتی حکم سے ہی ختم ہوسکتا ہے۔ احسن بھون نے کہا کہ معاملہ آئینی و قانونی حیثیت کا ہو تو کمیٹی آئینی بینچ کو بھیج سکتی ہے۔
جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ شکر گزار ہوں آپ ایک دن کے نوٹس پر تشریف لائے۔ احسن بھون نے کہا کہ جناب کا حکم تھا، اس لیے حاضر ہوگیا۔ جسٹس منصور نے کہا کہ چلیں کم از کم آپ تو ہمارا حکم مانتے ہیں۔ احسن بھون کا کہنا تھا کہ یہاں کھڑے ہو کر ہم ہر حکم مانیں گے۔ جسٹس منصورت نے لقمہ دیا اور باہر جاکر بیشک نہ مانیں، جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
جسٹس منصور نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو آج ہی سنیں گے، کوشش کریں گے آج ہی سماعت مکمل ہو جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کمیٹی کے پاس کیس واپس لینے کا اختیار کہاں سے آگیا؟، خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں لکھا ہوا ہے کہ کون سا مقدمہ کہاں چلے گا۔ جسٹس منصور نے استفساد کیا کہ اگر آرٹیکل 185 ذیلی شق تین کے کیس میں کوئی ٹھوس قانونی سوال آجائے تو؟، کیا ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی اجازت نہیں ہے؟، کیس ہمارے سامنے کمیٹی نے لگایا تھا، اس طرح سے کیس واپس ہونے لگے تو عدلیہ کے آزادی کے منافی ہے، اگر ہم کوئی فیصلہ دیتے تو نظرثانی میں بڑا بینچ بنا دیتے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میرے حساب سے کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر کمیٹی ایسا کیس بھی واپس لے لے گی جو ہم سن سکتے ہوں گے، آئینی بینچ نان جوڈیشل فورم کے ذریعے بنائے گئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس لئے درست قرار دیا کہ عدلیہ بینچ بنائے گی۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ آئین میں درج ہے کہ آئینی بینچ کیسے بنایا جائے گا، دو رکنی ریگولر بینچ توہین عدالت کیس میں فل کورٹ نہیں بنا سکتی، عدالتی بینچز کی تشکیل کیلئے دو کمیٹیاں ہیں۔
جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ آپ کی بات درست ہے ہمارا اختلاف نہیں بینچز کمیٹیاں ہی بناتی ہیں، بادی النظر میں فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کو ہے ججز کمیٹیز کو نہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980ء کے تحت چیف جسٹس سے فل کورٹ کی گزارش کی جا سکتی ہے۔ جسٹس عقیل نے پوچھا کہ کیا ہم توہین عدالت کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کیلئے چیف جسٹس سے گزارش کر سکتے ہیں؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیلئے سپریم کورٹ رولز دیکھنے ہوں گے۔ جسٹس عقیل نے کہا کہ کل کہیں لوگ یہ نہ کہیں سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہیں۔