سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس کا سابقہ بینچ ہی بحال کرنےکا حکم دیدیا۔ بینچ کےسربراہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ آفس سے غلطی ہوگئی ۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے تیاری کیلئے مہلت دینے کی استدعا مسترد کر دی ۔ عدالت نےسوال اٹھا رکھا ہےکہ کیا کسی آئینی ترمیم سے حکومت سپریم کورٹ بنچز کے اختیارات محدود کر سکتی ہے ؟۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل191اے کے تحت سپریم کورٹ بینچز کا اختیار سماعت واپس لئے جانے کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے رجسٹرار آفس کی جانب سےبینچ میں تبدیلی کو غلطی قرار دیدیا ۔ پیر کے روز کیس سابقہ بینچ کے سامنے ہی مقرر کرنے کا حکم دیدیا۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 13 جنوری کو اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں تبدیلی کر کے جسٹس عرفان سعادت کی جگہ جسٹس عقیل عباسی کو شامل کر دیاگیا ہے۔ بینچ تبدیل کرنا آفس کی غلطی ہے۔جسٹس عقیل عباسی سندھ ہائیکورٹ میں یہ کیس سن چکے ۔ اب وہ اُس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں سن سکتے۔ پیر کے روز یہ کیس سابقہ بینچ کےسامنے ہی سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔ سینئر ترین جج نے واضح کیا کہ یہ جوڈیشل آرڈر ہے اور رجسٹرار آفس اس پر عمل کرنے کا پابند ہے ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کی تیاری کیلئے تھوڑا وقت دینے کی استدعا پر جسٹس عائشہ ملک نےکہا پیر تک آپ کے پاس پورا وقت ہے۔ ویسے بھی اس معاملے میں تو آپ کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نےکہا اس اہم نکتے پر اٹارنی جنرل کی معاونت بھی درکار ہو گی کہ آرٹیکل191اے کے تحت بینچز کا اختیار سماعت واپس لیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 13جنوری کو ٹیکس سےمتعلق مقدمہ کی سماعت کےدوران بینچ پر اعتراض اٹھائے جانے پر فریقین سے معاونت طلب کی تھی ۔ بینچ میں تبدیلی گذشتہ رات کی گئی ۔ کیس کی اگلی سماعت 20 جنوری کو صبح ساڑھے11 بجے ہو گی۔