چیف جسٹس یحیی آفریدی کا کہنا ہے کہ ہم سب ججز آپس میں بھائی ہیں، وہ وقت گزر گیا جب ججز نے ایک دوسرے کے خلاف پوزیشن لی ہوئی تھی۔ عدلیہ کے لئے مقدمات کی وجہ سے گزشتہ 3،4 سال بڑے سخت تھے۔
سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے ممبران سے ملاقات میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اپنی رائے کسی ساتھی دوست پر مسلط نہیں کرتا، وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں ٹھیک ہوں گی۔ میری رائے ہے مشترکہ دانش کے ساتھ آگے چلنا چاہیے۔ ججز کسی الزام پر جواب نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وژن ہے سپریم کورٹ میں کیس آئے تو سائل کا ای میل ایڈریس اور واٹس ایپ نمبر لیا جائے، واٹس ایپ اور ای میل پر سائل کو کیس فائلنگ سے فیصلے تک تمام آرڈرز ملتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ارجنٹ درخواستوں کی سماعت کا بھی میکنزم بنا رہے ہیں، ہمارے ججز نے 8 ہزار کیسز مختصر وقت میں نمٹائے ہیں، کیس مینجمنٹ بہتر کرکے انصاف کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکتی ہے، انتخابی عذرداریاں سننے کے لیے اسپیشل بینچز بنائے جاچکے ہیں، فوجداری اور ٹیکس کے مقدمات کے لیے بھی اسپیشل بینچز کام کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گوادر اور کوئٹہ کے دورے پر لاپتہ افراد کے کیسز نے ہلا کر رکھ دیا، لاپتہ افراد کے کیسز کو بھی اٹھایا جائے گا، مستحق سائلین کو ضلع کچہری میں مفت وکیل کی سہولت دیں گے۔
چیف جسٹس یحیی آفریدی نے مزید کہا کہ جیلوں کے دوروں میں برسوں کیسز کے فیصلے نہ ہونے کی شکایت ملی، قیدیوں کی جانب سے یہ شکایت آنے پر میں بہت شرمندہ ہوا، سپریم کورٹ کے اسپیشل بینچز میں روزانہ 2،3 پرانے کیسز سنے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی متحرک کر دیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کیخلاف شکایات پر کارروائی چل رہی ہے، اے ڈی آر پر جسٹس منصورعلی شاہ نے بہت کام کیا،سلام پیش کرتا ہوں، اے ڈی آر نظام کے لیے ریٹائرڈ ججز کو تربیت دیں گے۔ اے ڈی آر کا نظام کا آغاز اسلام آباد سے کیا جائے گا، اسلام آباد کے بعد اے ڈی آر نظام باقی اضلاع تک لے جائے جائے گا۔