سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے فوجی ٹرائل پر سوالات اٹھا دیئے۔ سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ 9 مئی کے مقدمات میں دفعات اے ٹی سی کی لگیں، پھر فوجی ٹرائل کیسے ہوگیا؟
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کورٹ میں جو افسر ٹرائل چلاتا ہے، کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر، دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے جو فیصلہ سناتا ہے، جس افسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ فیصلے کیسے سناتا ہوگا؟
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فیصلہ سنانے والے افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک آرمی چیف کےطیارے کو ایئرپورٹ کی لائٹس بجھا کر کہا گیا ملک چھوڑ دو، اس واقعے میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جوبندہ جہاز میں تھا ہی نہیں، وہ ہائی جیکر کیسے ہوگیا؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس جہاز میں تھوڑا ایندھن تھا، پھر خطرے میں ڈالا گیا، اس ایک واقعے کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا، مارشل لا کے بعد بھی وہ کیس فوجی عدالت میں نہیں چلا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میں یہاں سیاسی بات نہیں کروں گا، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے جائزہ لیا تھا، سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا جہاز میں کافی ایندھن باقی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اسی لئے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ اگر ہائی جیک جنگی یا فوجی طیارے کو کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل میں بیٹھنے والے افسران کو ٹرائل کا تجربہ ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے پاس اکثریت ہے، کل کوہائی جیکنگ اور 302 بھی آرمی ایکٹ میں ڈال لیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ نو مئی کی ایف آئی آرز میں ساری دفعات انسداد دہشت گردی ایکٹ کی لگی تھیں، مجھے نہیں پتہ پھر ان دفعات پر فوجی ٹرائل کیسے ہوا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی تعداد 5 ہزار سے زیادہ تھی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ نے کوئی مثال دی تھی کہ امریکا میں بھی فوجی ٹرائل ہوئے، اگر کسی اور ملک میں ایسا ٹرائل ہوتا ہے تو جج کون ہوتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پوری دنیا میں کورٹ مارشل میں آفیسر ہی بیٹھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جج صاحبہ پوچھ رہی ہیں کہ کیا ان افسران کی قانونی قابلیت بھی ہوتی ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور باقی قانون میں فرق ہوتا ہے، آئین کے مطابق یہ تمام بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قانون میں معقول وضاحت دی گئی ہے، کورٹ مارشل کا طریقہ کار دیا گیا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ اسپیشل قانون ہے، اسپیشل قوانین کے شواہد اور ٹرائل کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کلبھوشن کا ٹرائل بھی فوجی عدالت میں کیا گیا تھا، کلبھوشن کا مقدمہ تو عالمی عدالت انصاف میں بھی چلا تھا، عالمی عدالت انصاف نے بھی فوجی عدالت کو تسلیم کیا تھا، کئی دہشتگردوں کی سزاؤں کیخلاف اپیلیں ہائی کورٹس میں چلیں اور فیصلے ہوئے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ صرف ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں، ہر دہشتگرد پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ فوجی عدالتوں کےفیصلوں کوبنیادی حقوق کےنکتےپربھی چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل میں مرضی کا وکیل کرنے کی سہولت بھی ہوتی ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ فوجی عدالت میں بطور وکیل صفائی پیش ہوتا رہا ہوں، ملزم کے لیے وکیل کے ساتھ ایک افسر بطور دوست بھی مقرر کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی، آئندہ سماعت پر خواجہ حارث اپنے دلائل میں فوجی عدالتوں کے ٹرائل کے طریقہ کار کے حوالے سے دلائل دیں گے۔