سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں عدالت نے کہا ہے کہ ایگزیکٹو کےخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل نہ ہوئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے۔ ایگزیکٹو کےخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کےفیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قراردیا کہ فوج کے ماتحت سویلینزکا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے، اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ وزارت دفاع کیا ایگزیکٹو ادارہ ہے؟ ایگزیکٹو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا خود جج بن کر فیصلہ کرسکتاہے؟؟ آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایسانہیں ہے، آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں،مختلف کیٹیگریزشامل ہیں، اس موقع پر جسٹس جمال نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 8(3) فوج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے، کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل8(3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ آئین میں شہریوں کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ افواج پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے دوسرے شہری، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سوال ہی یہی ہےکہ فوج کے لوگوں کوبنیادی حقوق سے محروم کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کوئی شہری فوج کاحصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے؟ ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنےکے باوجود فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر شہری کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟
خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ایک صورتحال ہے، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہی تو سب سے اہم سوال ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ سوال کا جواب بہت سادہ ہے، اگرشہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل ہوگا، صرف چوکی کے باہرکھڑے ہونے پر تو شہری کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا، آرمی ایکٹ کا نفاذ کن جرائم پر ہوگا اس کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔
جسٹس مسرت نے کہا کہ اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
جسٹس جمال نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کےڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا، ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل بھی نافذ رہا، فرض کریں ایک چیک پوسٹ پر عام شہری جانےکی کوشش کرتا ہے تو کیا یہ بھی آرمڈفورسز کےفرائض میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا؟
سماعت کےاختتام پر حفیظ اللہ نیازی نےروسٹرم پر آ کر شکایت کی کہ ان کے بیٹے سمیت فوجی عدالتوں سےسزایافتہ کچھ قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کیا گیا ہے ۔ وہاں ان سے عام قیدیوں والا سلوک نہیں ہو رہا ۔ جسٹس امین الدین خان نےکہا آپ متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ فورم پر جائیں ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےجواب دیا وفاقی حکومت کا کردار صرف قیدیوں کو جیل حکام کےحوالے کرنا تھا ۔