شام بائی، پاکستان کی معروف لوک گلوکارہ، اپنی منفرد آواز اور سندھ کے ثقافتی ورثے کی جھلک پیش کرنے والے گیتوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان کی موسیقی نہ صرف سندھ کی روایات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ان کی گائیکی نے انہیں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ایک خاص مقام عطا کیا ہے۔
شخصی پس منظر
شام بائی کا تعلق سندھ کے ایک چھوٹے اور پسماندہ گاؤں سے ہے، جہاں انہوں نے بچپن ہی سے موسیقی کا شوق پال لیا تھا۔ ان کی ابتدائی تربیت قدرتی تھی، اور ان کے گیتوں میں سندھ کی مٹی کی خوشبو اور مقامی ثقافت کا رنگ نمایاں ہے۔ مقامی میلوں اور تہواروں میں گائیکی سے شہرت حاصل کرنے والی شام بائی کو ان کے والدین نے ہمیشہ سراہا اور مزید ترقی کے لیے حوصلہ افزائی کی، جس سے ان کے فنی سفر کو جِلا ملی۔
فنی سفر کی ابتدا
شام بائی نے اپنے فنی سفر کا آغاز 1990 کی دہائی میں کیا۔ انہوں نے لوک موسیقی میں جدید عناصر شامل کر کے نہ صرف اپنی منفرد پہچان بنائی بلکہ نوجوان نسل کو بھی اپنی موسیقی کا گرویدہ بنایا۔ ان کے مشہور گانوں میں "سندھی ٹوپی" اور "چن چن چڑیا" شامل ہیں، جو عوامی محفلوں میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔ ان کے گانے نہ صرف تفریح فراہم کرتے ہیں بلکہ سامعین کو سندھ کی ثقافت اور روایات سے جوڑتے ہیں۔
سماجی مسائل پر آواز بلند
پاکستان حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات سے گزر رہا ہے، جیسے کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب، جس نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس تناظر میں، شام بائی نے اپنی موسیقی کو ایک نئے مقصد کے لیے وقف کیا۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر سندھ کے دیہی علاقوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک میوزیکل گروپ تشکیل دیا ہے۔ وہ اپنے گیتوں کے ذریعے عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں اور لوگوں کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات پر ابھارتی ہیں۔
سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل
سندھ، پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں شدید گرمی کی لہریں، پانی کی قلت، اور زرعی زمینوں کی بنجر پن ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔
- زرعی نقصانات: سندھ کی زراعت، جو مقامی معیشت کا ستون ہے، غیر متوقع بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف غذائی قلت بلکہ کسانوں کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔
- پانی کی قلت: پانی کے وسائل میں کمی کی وجہ سے زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔
- ماحولیاتی مہاجرین: سیلاب اور دیگر ماحولیاتی آفات کے باعث لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں، جو ان کی زندگیوں میں مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
- صحت کے مسائل: بدلتے موسم اور بڑھتے درجہ حرارت کے نتیجے میں بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں ملیریا اور ہیٹ اسٹروک نمایاں ہیں۔
شام بائی کی کوششیں
شام بائی اپنے گانوں میں ان مسائل کو شامل کرتی ہیں اور مقامی لوگوں کو ان کے حل کے لیے متحرک کرتی ہیں۔ وہ گاؤں گاؤں جا کر اپنے گیتوں کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرتی ہیں کہ وہ کس طرح پانی کا بچاؤ، شجرکاری، اور ماحول دوست طرزِ زندگی اپنا کر ان اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں خصوصاً خواتین کو متحرک کرتی ہیں، جو اپنے گھروں اور کمیونٹیز میں ان تبدیلیوں کو نافذ کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ثقافتی ورثے کی حفاظت
شام بائی کی موسیقی محض تفریح تک محدود نہیں بلکہ یہ سندھ کے ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ وہ اپنی گائیکی کے ذریعے یہ پیغام دیتی ہیں کہ ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے گیت آنے والی نسلوں کے لیے ایک خزانہ ہیں، جن میں سندھ کی ماضی کی کہانیاں اور روایات محفوظ ہیں۔
شام بائی: ایک ثقافتی سفیر
شام بائی صرف ایک گلوکارہ نہیں بلکہ سندھ کی ثقافت کی سفیر ہیں۔ ان کی موسیقی نے نہ صرف فن کی دنیا میں مقام حاصل کیا ہے بلکہ یہ سماجی تبدیلی کے لیے بھی ایک موثر ذریعہ ثابت ہو رہی ہے۔ ان کی کوششوں نے ثابت کیا ہے کہ فن صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ معاشرے کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے ایک مشعلِ راہ
موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر ان کی آگاہی مہم ایک اہم قدم ہے، جو مقامی لوگوں کو نہ صرف مسائل سے آگاہ کرتی ہے بلکہ انہیں ممکنہ حل تلاش کرنے کی تحریک بھی دیتی ہے۔ ان کی یہ کاوش سماجی شعور کو بڑھانے اور پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن ہونے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ شام بائی کی موسیقی اور ان کے سماجی اقدامات ایک مثال ہیں کہ کس طرح ایک فنکار اپنی صلاحیتوں کو بہتر مستقبل کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔
شام بائی کی زندگی اور موسیقی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک فنکار اپنی صلاحیتوں کے ذریعے نہ صرف اپنی ثقافت کو فروغ دے سکتا ہے بلکہ معاشرتی مسائل پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے۔ ان کا کام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے، اور وہ اپنی موسیقی کے ذریعے سندھ اور پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں۔