حکومت ملک کو ڈیجیٹلائز کرنے کے مقصد کیلئے ڈیجیٹل نیشن بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے۔ پاکستانی قوم اور انداز حکمرانی کو ڈیجیٹلائز کرنےکےلیے ڈیجیٹل نیشن بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کےعمل کا آغاز ہوگیا ۔ بل کے تحت ہر شہری کو نادرا ایک ڈیجیٹل آئی ڈی جاری کرے گی۔
بل کے مطابق متعلقہ شخص کی تمام ذاتی اور مالی تفصیلات ایک کلک پر دستیاب ہوں گی۔ یعنی ہر شہری کا نادرا ، ایف بی آر اور ایس ای سی پی میں موجود ریکارڈ حتی کہ بجلی گیس کے بل کی تفصیل اور بینک اکاؤنٹ سے ہونے والی ہر ٹرانزیکشن بھی اس آئی ڈی میں فیڈ ہوگی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے شہریوں کو آسانی میسر آئے گی اور وہ مزید بااختیار ہوں گے۔
وزیر مملکت آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ کا کہنا ہے کہ شہری شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ہر سہولت فون پر استعمال کرسکے گا۔ تصدیق شدہ ڈاکیومنٹ اور ڈیجیٹل طریقے سے بزنس رجسٹرڈ کر سکیں گے ۔ اس بل سے ریاست سے طاقت واپس عوام کو دی جا رہی ہے ۔ ڈیٹا انٹر آپٹبل ابیلٹی سے سپائن کا کوئی تعلق نہیں۔
وزرات آئی ٹی کا کہنا ہے کہ نئے قانون سے پاکستان کی ڈیجیٹلائزیشن کا سفر شروع اور معیشت کو باضابطہ بنانے کا عمل تیز ہوگا۔۔۔۔ لوگوں کو بینکوں سے قرض لینے اور سرکاری اسکیموں کا حصہ بننے میں آسانی ہوگی۔ مگر اپوزیشن کو قانون کے غلط استعمال کا خدشہ ہے۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ اس بل ہتھیار بنا کر پاکستان کی عوام کیخلاف استعمال کیا جا رہا ہے، موبائل سمیت ہر چیز ٹریک ہو گی عوام پر مکمل جاسوسی کی جائے گی۔
حزب اختلاف ہی نہیں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ماہرین بھی شہریوں کے ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن نگہت داد کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ڈیٹا پروٹیکشن کی رجیم موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں ماضی میں نینشل بینک۔ ایف بی آر کا ڈیٹا ہیک ہوا ۔ لوگوں کا بہت سا ڈیٹالیک ہوا ۔ اگر ڈیٹا بریچ ہو گا تو ذمہ دار کون ہو گا ۔ پروٹیکشن کے بغیر آئی ڈیز کو سینٹرلائڑ کرنا خوش آئند نہیں۔
اس بل کے ذریعے حکومت دو نئے ادارے بھی قائم کرے گی۔ وزیراعظم کی زیرسربراہی نیشنل ڈیجیٹل کمیشن اور آئی ٹی ماہرین پر مشتمل چھ رکنی پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی بنے گی۔ وزارت آئی ٹی کا دعویٰ ہے کہ نئے اداروں کی مدد سے سرکاری امور کو ڈیجیٹلائز کرنے میں مدد ملے گی۔