دنیا بھر میں لاکھوں افراد بہتر زندگی کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں، جہاں وہ زیادہ آمدنی اور بہتر روزگار کے مواقع کی امید رکھتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنی زندگی کی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے برسوں جدوجہد کرتے ہیں، اچانک ایک دن انہیں اپنے خوابوں کو ادھورا چھوڑ کر واپس اپنے وطن لوٹنا پڑتا ہے۔ یہ ایک سنگین المیہ ہوتا ہے، جسے ہم ڈی پورٹیشن کے نام سے جانتے ہیں۔
ڈی پورٹ ہونے والے افراد پر اس کا اثر گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلو اس سے متاثر ہوتے ہیں، بشمول ان کے جذباتی، مالی اور سماجی حالات۔ اس کے اثرات کا اندازہ لگانا آسان نہیں، کیونکہ یہ افراد اپنی زندگی کے ایک اہم حصے کو کھو دیتے ہیں اور ایک نئی، غیر متوقع حقیقت کا سامنا کرتے ہیں۔
ڈی پورٹیشن کا سب سے پہلا اور شدید اثر ان افراد کی جذباتی حالت پر پڑتا ہے۔ جو لوگ کسی دوسرے ملک میں طویل عرصے تک رہتے ہیں، ان کے لیے وہاں کا سوشل نیٹ ورک، دوست، اور معاشی استحکام ایک معمول بن چکا ہوتا ہے۔ جب یہ سب اچانک چھین لیا جاتا ہے تو وہ شدید جذباتی صدمے کا شکار ہوتے ہیں۔ بیرون ملک سوشل سپورٹ نیٹ ورک سے علیحدگی انہیں مایوسی اور ڈپریشن کی جانب دھکیل دیتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں، ڈی پورٹیشن کا سامنا کرنے والوں کو بدنامی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ یہاں ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو اکثر ناکام یا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ سماجی بدنامی ان کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتی ہے، کیونکہ وہ نہ صرف اپنی شناخت کو کھو دیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی کمتر محسوس کرتے ہیں۔
ڈی پورٹیشن کا ایک اور سنگین اثر خاندان سے علیحدگی ہوتا ہے۔ بہت سے افراد جب دوسرے ممالک میں کام کرنے جاتے ہیں تو اپنے خاندان کے افراد کو بھی ہمراہ لے جاتے ہیں۔ لیکن جب انہیں ڈی پورٹ کیا جاتا ہے تو وہ اپنے اہلخانہ سے دور ہو جاتے ہیں، خاص طور پر جب ان کے بچے یا شریک حیات میزبان ملک میں رہتے ہیں اور انہیں واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ یہ علیحدگی طویل مدتی جذباتی پریشانی کا باعث بنتی ہے اور ان کے خاندانی سٹرکچر پر بھی اثر انداز ہوتی ہےمالی مشکلات
ڈی پورٹ ہونے کے بعد سب سے بڑا چیلنج مالی بحران ہوتا ہے۔ جو افراد غیر ملکی ملک میں اچھی خاصی آمدنی کما رہے ہوتے ہیں، وہ وطن واپس آ کر اپنے مالی استحکام کو کھو دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں روزگار کے مواقع محدود ہیں، ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پاس ایسی مہارت یا قابلیت نہیں ہوتی جس کی ان کے آبائی ملک میں طلب ہو۔ اس وجہ سے وہ اکثر مستحکم روزگار تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ڈی پورٹ ہونے کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان افراد کے لیے دوبارہ میزبان ملک میں داخلہ ممکن نہیں ہوتا۔ ایک طرف مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، تو دوسری طرف یہ افراد اپنے خوابوں کے ٹوٹنے کے احساس سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
اسد علی، 2002 میں ڈرائیور کے ویزے پر دبئی گئے۔ اسد بتاتے ہیں کہ انہوں نے دبئی میں 13 سال بطور ڈرائیور کام کیا۔ انکی آمدنی تین ہزار درہم ماہانہ تھی، جو نہ صرف انکے اخراجات کے لیے کافی تھی بلکہ وہ اپنے اہلخانہ کو پاکستان بھی رقم بھیجتے تھے۔ 2014 میں ایک دن دبئی پولیس نے انکا ویزا چیک کیا اور ایکسپائر ہونے پر انہیں پاکستان ڈی پورٹ کر دیا۔ اسد کہتے ہیں کہ وہ کچھ دنوں سے زائد المیعاد ویزا کی تجدید کی کوششوں میں تھے مگر قانونی کارروائی کے باعث نوکری اچانک ختم ہو گئی اور انہیں پاکستان واپس آنا پڑا۔ اسد علی نے بتایا کہ "پاکستان آ کر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہاں دبئی میں لاکھوں روپے کما رہے تھے، اچھے طریقے سے اہلخانہ کی سپورٹ بھی کر رہے تھے اور اب اچانک سب کچھ رک گیا تھا۔ یہ انکے لئے کسی المیے سے کم نہیں تھا۔ اسد کے مطابق انہوں نے اپنی ہمت کو جمع کیا اور نئے سرے سے زندگی کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ اسد علی آج کل لاہور کے نجی ادارے میں بطور ڈرائیور ملازمت کر رہے ہیں۔ اسد علی نے کہا کہ اگرچہ دوبارہ نوکری شروع کر لی، لیکن وہ آمدنی نہیں ہو سکتی جو دبئی میں تھی۔ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ اپنی زندگی کے اس مشکل وقت میں انہیں اپنے اہلخانہ کا تعاون حاصل رہا، ورنہ شاید وہ بھی مایوسی کا شکار ہو جاتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب بھی انکا دل چاہتا ہے کہ وہ دبئی جائیں مگر ایسا ممکن نہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو بیرون ملک بھیجنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے کوششیں بھی کر رہے ہیں
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عبدالروف بھی 2005 میں دبئی گئے اور وہاں 17 سال گزارے۔ دبئی میں انکے شاندار وقت کا اختتام بھی ڈی پورٹیشن پر ہوا۔ عبدالروف کہتے ہیں کہ انہوں نے سیلز مین کے طور پر دبئی کا سفر شروع کیا، پھر ڈرائیونگ کی نوکری اختیار کی اور مختلف کمپنیوں میں کام کیا۔ دبئی میں انکی زندگی اچھی گزر رہی تھی، لیکن دو ہزار بائیس میں انکی زندگی کا رخ یکسر بدل گیا۔
عبدالروف بتاتے ہیں کہ بھارتی شہری کے سٹورز کی ایک چین تھی جہاں انہیں نوکری مل گئی۔ بطور ڈرائیور انکے ذمے مختلف برانچز میں لیبر لانے اور لے جانے کا کام تھا۔ برا وقت اسوقت شروع ہوا جب میرا ویزا ایکسپائر ہونے والا تھا۔ اسی دوران گجرات کے ایک پاکستانی نے ہماری کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ ایک روز اس نے کہا کہ اپنے نام سے سم کارڈ نکلوا دو. جب کمپنی میں ویزہ لگے گا تو وہ سم کارڈ واپس کر دے گا۔ عبدالروف نے رحم کھایا اور اعتبار کرتے ہوئے سم نکلوا دی۔ عبدالروف کے مطابق سم لیکر اس نے ساتھیوں کو ساتھ ملایا اور ایک زیر تعمیر عمارت سے کنسٹرکشن میٹیریل چوری کر لیا۔ عبدالروف کا موبائل فون بھی جائے وقوعہ پر چھوڑ دیا۔
عبدالروف بتاتے ہیں کہ وہ پاکستانی تو اپنے ملک لوٹ گیا۔ پولیس نے کرائم سین سے فون دیکھ کر تفتیش کی اور تفصیلات نکال کر عبدالروف کو گرفتار کر لیا۔ عبدالروف بتاتے ہیں کہ انہیں چار ماہ جیل میں رکھا گیا، اس دوران عدالت بھی پیش کیا جاتا رہا۔ دو ہزا بائیس میں ایک دن انہیں واپس پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ کراچی لینڈ کرنے کے بعد وہاں سے فیصل آباد اپنے گھر پہنچے۔
عبدالروف کے مطابق انہوں نے دبئی رہ کر اچھی کمائی کی۔ اس آمدن سے جائیداد بھی بنائی، بچوں کو پڑھایا، بزرگ والدین کا اچھا علاج بھی کرایا۔ ڈی پورٹ ہونے کے باعث تقریبا دس لاکھ روپیہ دبئی میں انکے کفیل کے پاس رہ گیا جو دوبارہ کبھی نہ ملے۔ عبدالروف نے مزید کہا کہ "پاکستان واپس آ کر زندگی مشکل ہوئی، لیکن اب وہ دوبارہ دبئی جانے کے لیے تیار ہیں۔
ڈی پورٹیشن نہ صرف افراد کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ یہ ان کے خاندانوں، معاشرتی تعلقات اور مالی استحکام کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ان افراد کے لیے بہتر زندگی کا خواب دوبارہ زندہ کرنے کے لیے حکومتوں، غیر حکومتی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کو ان کی مدد کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں معاشی طور پر مستحکم بنانے اور دوبارہ اپنا مقام بنانے میں مدد فراہم کرنا، ان کے لیے ایک نئی امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔