عالمی عدالت انصاف میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ریاستوں کی ذمہ داریوں پر سماعت ہوئی۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان کی آبادی اور معیشت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا خاکہ پیش کردیا
پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات پر اپنا مؤقف پیش کیا اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ دوہزاربائیس کے سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا جس سے تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اس تباہی سے تعمیر نو کے اخراجات سولہ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا سامنا دیگر ممالک کے مقابلے میں پندرہ گنا زیادہ ہےپیرس معاہدہ اور اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن ماحولیاتی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بنیادی معاہدے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ ان معاہدوں سے بین الاقوامی قانون کے تحت سخت ذمہ داریوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے تناظر میں لاعلمی کا دعویٰ کسی صورت قابل قبول نہیں۔
منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محسوس کرنے والی پہلی نسل ہیں اور شاید آخری نسل بھی ہیں جو اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہیں۔