شام میں تیرہ برس بعد بغاوت کامیاب ہوگئی ۔ بشار الاسد ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ اپوزیشن فورسز نے دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا ۔ مرکزی جیل سے ہزاروں قیدی رہا ۔ صدارتی محل کا کنٹرول بھی اپوزیشن فورسز نے حاصل کر لیا ۔ باغی کمانڈروں نے سرکاری ٹی وی پر عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ۔ اقتدار کی منتقلی تک وزیر اعظم کو عہدے پر برقرار رکھنے کا اعلان کردیا
عالمی خبررساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد دمشق سے فرار ہوگئے۔ شام کے صدر بشار الاسد دمشق میں نہیں ہیں۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو عمارتوں کاکنٹرول باغیوں کے پاس ہے، باغیوں کوکسی مزاحمت کا سامنا نہیں۔
شامی مسلح اپوزیشن کا کہنا ہے کہ دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا ہے، دمشق اب بشارالاسد سے آزاد ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق باغی فورسز کے پاس بشارالاسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس انٹیلی جنس رپورٹ نہیں ہیں اور وہ انہیں تلاش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب شامی صدارتی محل نے کہا ہے کہ صدر ملک میں ہی ہیں تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ شامی صدر دمشق میں کسی بھی ایسے مقام پر نہیں ہیں جہاں ان کے ہونے کی توقع ہو۔
صدارتی محل سے جاری بیان میں شامی وزیراعظم نے کہا کہ اپنے گھر میں ہوں کہیں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا، چاہتا ہوں عوامی ادارے کام کرتے رہیں، سب سے اپیل کرتا ہوں ملک کے بارے میں سوچیں۔
عرب میڈیا کا یہ بھی کہنا ہےکہ شامی اسٹیک ہولڈرز نے بشارالاسدکے اقتدار کے خاتمے کے بعدکا پلان تیار کرلیا ہے۔ مجوزہ پلان کے مطابق بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت تشکیل دی جائےگی، عبوری حکومت 9 ماہ کے اندر صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کی پابند ہوگی۔
سرکاری ادارے سابق وزیراعظم کی زیرنگرانی رہیں گے
حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ دمشق میں حزب اختلاف کی تمام فورسز کو سرکاری اداروں پر قبضہ کرنے سے روک دیا گیا ہے، جو سرکاری طور پر ان کے حوالے کیے جانے تک سابق وزیر اعظم کی نگرانی میں رہیں گے۔ ابو محمد الجولانی نے ایک بیان میں مزید کہا کہ جشن منانے کے لیے فائرنگ کرنا بھی ممنوع ہے۔
اس سے قبل الاسد کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ ریاستی اداروں کی نگرانی کے لیے دمشق میں رہیں گے۔
شام کی صورتحال بین الاقوامی سلامتی کیلئے خطرناک قرار
قطر،سعودی عرب،اردن،مصر،عراق،ایران، ترکیے اور روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
قطر میں ہونے والے دوحہ فورم کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس میں شام میں فوجی آپریشنز روکنے اور شہریوں کی حفاظت کے لیے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ باغی گروپ کے عسکری آپریشن کی منصوبہ بندی طویل عرصے پہلے کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ طاقت کا توازن بگاڑنے اور گراؤنڈ پر صورتحال تبدیل کرنے کی کوشش ہے، روس باغی گروہ کی پیش قدمی کی مخالفت کرےگا۔
دوحہ فورم کے مشترکہ اعلامیے میں قطر،سعودی عرب،اردن،مصر،عراق،ایران، ترکیے اور روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔