طورخم کے راستے پاکستان پہنچنا انتہائی کھٹن سفر تھا، اس دوران جان کے لالے پڑے ہوئے تھے، میں نے اپنی شناخت کو چھپا رکھا تھا کہ کوئی پہچان نہ لے، یہ کہنا ہے افغانستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی مزدلفہ کاکڑ کا۔ مزدلفہ کاکڑ بتاتی ہیں وہ 7 دسمبر 2022 کو ایک مشکل ترین سفر طے کرنے کے بعد پاکستان پہنچی۔
صحافی مزدلفہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں ان سمیت ان خواتین کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی تھی جو میڈیا یا بین الاقوامی این جی اوز سے منسلک تھیں۔ مزدلفہ بتاتی ہیں انکے پاس ویزہ تھا اس کے باوجود انکے لیے پاکستان پہنچنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ راستے کی سختیاں ایک طرف یہاں پاکستان پہنچنے کے بعد بھی انکو سکون کا سانس نصیب نہیں ہوا۔ اور مختلف مشکلات کا سامنا رہا، ہم صحافی عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگئی تھی جو نہ تو واپس افغانستان جاسکتی تھی اور نہ ہی یہاں سکون سے رہ سکتی تھی۔
مزدلفہ بتاتی ہیں سکیورٹی مسائل کے ساتھ ساتھ انکو اقتصادی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پاکستان میں افغان صحافیوں کے لیے کام کے مواقعے نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے وہ معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ پردیس میں جب کام بھی نہ ہو تو زندگی بہت مشکل ہوجاتی ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں لڑکیوں پر نہ صرف تعلیم کے دروازے بند کردئے گئے بلکہ انکو کام کرنے سے بھی روکا گیا۔ طالبان نے خواتین کے لیے میڈیا کے دروازے بھی بند کردیئے ، انہیں ٹی وی سکرین پر نظر نہ آنے کی ہدایت کی گئی جبکہ بعض خواتین صحافیوں کو براہ راست دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی جس کی وجہ سے کئی خواتین صحافیوں نے ملک اور نوکری دونوں کو خیرباد کہہ دیا۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین نے پاکستان کا رخ کیا جہاں سے کچھ بیرون ممالک جاچکی ہیں جبکہ کچھ ابھی بھی یہاں مقیم ہیں۔
اگر پاکستان سے بھی نکال دیا گیا تو کہاں جائیں گے؟
مزدلفہ کاکڑ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہے جہاں سے وہ کسی ایسے ملک جانا چاہتی ہیں کہ وہاں انکو تمام بنیادی انسانی حقوق مل سکیں۔ مزدلفہ کاکڑ نے بتایا کہ جب بھی پاکستانی حکومت افغان تارکین وطن کو ملک سے جانے کے لیے ڈیڈلائن دیتی ہے تو ان پر خوف طاری ہوجاتا ہے کہ اگر پاکستان سے بھی نکال دیا گیا تو کہاں جائیں گے کیونکہ افغانستان میں انکی جان کو خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا انکی مشکلات میں ابھی تک کمی نہ آسکی۔ آجکل افغان خواتین صحافیوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انکے باہر جانے والے ویزوں کا پراسیس بہت سست روی کا شکار ہے، اس وجہ سے ذہنی کوفت میں مبتلا ہے، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی کئی صحافی اس انتظار میں ہے کہ کب انکے ویزا کا عمل مکمل ہو اور وہ یہاں سے کسی پرامن ملک جاسکیں۔
افغان صحافیوں کے مطابق پاکستان میں اس وقت مقیم افغان صحافیوں کی تعداد 500 کے قریب ہیں، ان میں کتنی خواتین صحافی ہیں اس حوالے سے تفصیلات موجود نہیں۔ یہ صحافی زیادہ تر پشاور اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔
مینہ اکبری بھی افغانی خاتون صحافی ہیں۔ مزدلفہ کاکڑ کی طرح مینہ اکبری بھی طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے پاکستان منتقل ہوئی۔ وہ کچھ عرصہ پشاور میں مقیم رہی تاہم بعد ازاں انہوں نے اسلام آباد میں رہائش اختیار کی۔ مینہ اکبری بھی یہاں سے کسی ایسے ملک شفٹ ہونا چاہتی ہیں جہاں وہ پرسکون زندگی گزار سکیں۔ وہ اس انتظار میں بیٹھی ہیں کہ کب انکا ویزہ لگے اور وہ یہاں سے چلی جائے۔
افغان صحافیوں کے لیے پاکستان میں کام کے مواقعے نہ ہونے کے برابر
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں اور خاص کر افغان خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مینہ اکبری نے کہا کہ افغان صحافی اپنے ملک میں تو مسائل میں گرے ہوئے ہیں لیکن جب وہ کسی دوسرے ملک ہجرت کرتے ہیں تو انکی مشکلات دوگنی ہوجاتی ہیں۔
مینہ اکبری نے بتایا وہ قریبا تین سال سے پاکستان میں مقیم ہے، یہاں انکو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے۔ " یہاں جتنے بھی افغان صحافی آئے ہیں انکو کام کے سلسلے میں مشکلات درپیش ہے، کچھ صحافی آن لائن کام کررہے ہیں لیکن زیادہ تر بے روزگار ہیں پاکستانی میڈیا اداروں میں افغان صحافیوں کو کام کے مواقعے نہ ملنے کے برابر ہیں" مینہ اکبری نے بتایا۔
مینہ اکبری نے کہا کہ پاکستان میں افغانوں کو نہ صرف نوکری کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اگر کوئی افغانی یہاں کاروبار کرنا چاہے تو بھی وہ نہیں کرسکتا، اس کے لیے کاروبار کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ مینہ اکبری مزید بتاتی ہیں افغان صحافیوں کو اس وقت سب سے اہم مسئلہ ویزوں کا نہ ملنا ہے، اسلام آباد میں وہ اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب انکا ویزہ لگے اور وہ یہاں سے اپنا رخت سفر باندھ لیں۔
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد کیسے اور کب شروع ہوئی؟
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر (اوچا) کے مطابق 1981 تک ان کی تعداد 20 لاکھ اور 1990 تک 32 لاکھ ہو چکی تھی۔ سوویت یونین کی واپسی کے بعد 1990 کی دہائی میں افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران بھی پناہ گزین پاکستان آتے رہے۔
2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا رخ کرنے والے افغانوں کی مجموعی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔
2002 میں طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد تقریباً 15 لاکھ افغانوں کی واپسی ہوئی اور 2012 تک یہ تعداد 27 لاکھ تک جا پہنچی۔ آئندہ دس برس میں وقتاً فوقتاً مزید افغان شہری اپنے ملک واپس جاتے رہے۔ 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے بعد تقریباً 7 لاکھ افغانوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں پناہ لی۔
سال 2023کی مردم شماری کے مطابق اسلام آبادسمیت پاکستان میں مقیم افغانیوں کی تعداد 19 لاکھ 23 ہزار 453 ہے، جس میں خیبر پختون خوا میں9لاکھ39ہزار 878، پنجاب میں مقیم افغان شہریوں کی تعداد 3لاکھ 10ہزار 832جبکہ سندھ میں مقیم افغان شہریوں کی تعداد 1لاکھ 45ہزار 875ہے۔
اسی طرح صوبہ بلوچستان میں 4 لاکھ 74ہزار 812ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں52ہزار56افغانی رہائش پذیر ہیں۔جبکہ اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر غیر قانونی افغان شہریوں کی کل تعداد 42لاکھ 29ہزارہے جس میں سے52.6فیصد خیبرپختونخوا،24.1فیصد بلوچستان، 14.3فیصد پنجاب، 5.5 فیصد سندھ، 3.1فیصد اسلام آباد اور 0.3فیصد آزاد کشمیر میں ہیں۔
افغان صحافیوں کو کرائے کے گھر نہیں ملتے
پشاور میں بین الاقوامی ادارے سے منسلک مسکا صافی نے بتایا افغانستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے صحافی یہاں بہت مشکلات سے دوچار ہیں۔ یہ صحافی وہاں فعال تھے لیکن جب کوئی مہاجرت کرتا ہے تو اس کی حیثیت ایک مہاجر کی ہی ہوتی ہے اور ایسا معاملہ افغان صحافیوں کے ساتھ بھی ہے۔ " یہاں افغان صحافیوں کو نہ تو وہ تنخواہ ملتی ہے اور نہ ہی وہ کام، سکیورٹی کے مسائل ہے پولیس آتی ہے انکو پکڑ کے لے جاتی ہیں، انکو کرائے کے گھر نہیں ملتے یہاں، صحت کے مسائل ہیں۔"
مسکا صافی افغان صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے کافی رپورٹنگ کرچکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں افغان صحافی آن لائن بھی اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ انکو سکیورٹی کے ایشوز ہیں، ان سے کام کی آزادی لی گئی ہے۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک کے اعدادو شمار کے مطابق ڈھائی سو کے قریب افغان صحافی پاکستان ہجرت کرکے آئے جن میں سے بیشتر اب امریکہ اور یورپ جاچکے ہیں تاہم کچھ ابھی بھی ویزوں کے انتظار میں ہے۔
خیبرپختونخوا کے لیے فریڈم نیٹ ورک کے کوآرڈنیٹر اور سینیئر صحافی گوہر علی خان نے اس ضمن میں بتایا کہ افغان صحافیوں کا بڑا مسئلہ پاکستان میں انکے ختم ہونے والے ویزوں کا تھا، یہاں انکے ویزوں کی معیاد ختم ہوچکی تھی، خدشہ یہی تھا کہ پاکستان سے انکو ڈی پورٹ کیا جائے تاہم فریڈم نیٹ ورک کی کوششوں سے انکو یہاں رہنے دیا گیا۔
ویزوں کے مسائل
گوہر علی خان نے بتایا اب بھی کئی افغان صحافی جن میں خواتین بھی شامل ہیں اسلام آباد اور پشاور میں رہائش پذیر ہیں کیونکہ انکے کیسز سفارتخانوں میں تاخیر کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسرے ممالک کا سفر کرنے سے قاصر ہیں اور افغانستان واپس جانا نہیں چاہتے کہ وہاں انکو سکیورٹی کے مسائل ہیں۔ " یہاں پاکستان میں ویزہ ری نیو کرنے کی فیس 500 ڈالرز تک تھی، کچھ افغان صحافیوں کے باہر کے ویزے بھی لگ چکے تھے لیکن بدقسمتی سے انکے پاکستان میں ویزوں کی معیاد ختم ہوچکی تھی اور یہاں سے انکو ایگزیٹ ویزے نہیں مل رہے تھے، افغانستان جاکر پاکستان کے ویزے لینا انکے بس میں نہیں تھا تو یوں بہت سارے صحافی بیرون ممالک نہ جاسکیں اور ابھی تک وہ انتظار میں بیٹھے ہیں" گوہر علی خان نے بتایا۔
خواتین صحافیوں کے لیے افغانستان میں کام کرنا ممکن نہیں
مینہ وال شنواری بھی ایک افغان صحافی ہے جو ایک بین الاقوامی ادارے کے ساتھ فری لانس صحافی کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مینہ وال شنواری نے کہا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو انہوں نے سب سے پہلا وار خواتین کے حقوق پر کیا، وہاں خواتین پر تعلیم کے دروزاے بند کردئے گئے کئی ایسے قوانین لائے گئے جو خواتین کو کام سے منع کرنے کے لیے ہیں، ان پر زندگی سخت ہوگئی۔
افغان خواتین صحافیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مینہ وال شنواری نے بتایا کہ افغانستان میں ان کے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہا تو سینکڑوں خواتین نے پاکستان کا رخ کیا لیکن یہاں بھی انکو نہ تو کام ملا اور نہ رہنے کی جگہ۔ یہاں یہ خواتین معاشی مسائل سے دوچار ہیں اور کوئی کام بھی نہیں کرسکتی، نہ ہی افغانستان جاسکتی ہیں کہ وہاں انکو جان کا خطرہ ہے۔